حیدرآباد ۔ 2 ۔ جنوری : محکمہ پولیس کو انتہائی بدنام اداروں میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جس طرح مٹھی بھر اشرار سارے ماحول کو بگاڑ دیتے ہیں اس طرح ہر محکمہ میں اچھے اور برے لوگوں کی کمی نہیں ۔ چنانچہ محکمہ پولیس میں بھی ایسے ملازمین کی کمی نہیں جو دیانت داری اور فرض شناسی کے ذریعہ بدعنوان عہدیداروں کو شرمندہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے ۔ ویسے بھی فرض شناسی ، دیانت داری اور سخت محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتے کبھی نہ کبھی دنیا ایسے ملازمین کی اہمیت کو تسلیم کرہی لیتے ہیں ۔ ایسے ہی ملازمین میں ٹریفک پولیس کے سینئیر ہوم گارڈ اکبر علی بھی ہیں جو خیریت آباد کے مصروف ترین علاقہ میں اپنی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں ۔ اکبر علی گذشتہ 16 برسوں سے محکمہ پولیس میں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ عام پولیس والوں کی طرح ہی وہ کام کرتے ہیں لیکن وہ دیگر پولیس والوں سے بالکل مختلف و منفرد ہیں اب تو انہوں نے اپنی شاندار کارکردگی کے ذریعہ عوام میں محکمہ پولیس کا امیج بہتر بنایا ہے ۔ اکبر علی ایک منفرد پولیس ہوم گارڈ اس لیے ہیں کہ انہوں نے حال ہی میں چار زندگیاں بچائیں ہیں اور چار لوگوں کی زندگیاں بچانے پر انہیں جو رقمی انعام دیا گیا ہے ۔ اس بات میں آپ جان کر نہ صرف حیرت زدہ رہ جائیں گے بلکہ افسوس کا اظہار کرنے لگیں گے ۔ اس کارنامہ پر اکبر علی کی پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں بشمول مسٹر امیت گرگ نے ستائش کی اور ہوم گارڈ کمانڈنٹ نے انہیں صرف دو ہزار روپئے کا چیک بطور انعام پیش کیا ۔
اس فرض شناس ہوم گارڈ سے بات چیت کے دوران انعامی رقم کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے بڑی بے باکی کے ساتھ جواب دیا ’ میں نے کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا بلکہ اپنی ڈیوٹی نبھائی ، انسانیت کا مظاہرہ کیا اور جہاں تک انعامی رقم کا سوال ہے چار زندگیاں بچ گئیں ، یہی میرے لیے سب سے بڑا انعام ہے جب کہ پولیس کے اعلی عہدیداروں و عوام نے جو ستائش کی وہ میرے لیے ایک اعزاز ہے ‘ ۔ مہنگائی کے اس دور میں ماہانہ 6 ہزار روپئے تنخواہ پانے والے اس ہوم گارڈ کا یہ جواب سن کر ہم لاجواب ہوگئے اور سوچنے لگے کہ سرکاری محکمہ میں ایسے لوگ بھی ہیں جو خدمت خلق کا جذبہ رکھتے ہیں ۔ 36 سالہ اکبر علی 1998 میں محکمہ پولیس میں بحیثیت ہوم گارڈ شمولیت اختیار کی تھی ۔ پنجہ گٹہ ٹریفک پولیس اسٹیشن سے وابستہ اکبر علی کا ہوم گارڈ نمبر 5123 ہے ۔ اس سوال پر کہ آخر انہوں نے چار لوگوں کی زندگیاں کیسے بچائیں ؟ اکبر علی نے جن کے والد ابراہیم علی مرحوم بھی ایک سرکاری ملازم تھے بتایا کہ 16 دسمبر 2012 کو دوپہر بارہ بجے خیریت آباد میں انہوں نے ایک ماروتی سویفٹ کار کو جاتے دیکھا جس سے بے تحاشہ دھواں نکل رہا تھا ۔ چنانچہ ماحول کو آلودگی سے پاک و صاف رکھنے کے لیے مقررہ قواعد کی خلاف ورزی سمجھ کر وہ کار کی جانب بڑھے ڈرائیور انہیں دیکھ کر تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگا لیکن اس دوران انہوں نے دیکھا کہ کار کے پچھلے حصہ سے آگ کے شعلہ بھی بلند ہورہے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے کسی نہ کسی گاڑی کو روکنے پر مجبور کیا اور اس میں بیٹھی ہوئی دو خواتین ایک لڑکا اور ڈرائیور کو باہر نکالا کار سے ایک خاتون کو بڑی مشکل سے باہر نکالا گیا اور جیسے ہی چاروں کو کار سے باہر نکالا گیا کار پوری طرح شعلہ پوش ہوگئی ۔ اس واقعہ پر کار ڈرائیور منظور علی ساکن کنچن باغ اور اس میں سوار دو خواتین حیران ہوگئیں ۔ تب انہیں اندازہ ہوا کہ اکبر علی دراصل انہیں ہلاک ہونے سے بچانا چاہتے تھے ۔
اکبر نے بتایا کہ وہ ایس ایس سی کامیاب ہیں اور ہوم گارڈ کی ڈیوٹی انجام دینے کے بعد سیکوریٹی گارڈ کی حیثیت سے کام کرلیتے تھے لیکن اب وہ ڈیوٹی انجام نہیں دے رہے ہیں ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی ملازمت باقاعدہ نہیں ہے ۔ وہ یہی چاہتے ہیں کہ ان کی خدمات کو مستقل کیا جائے تاکہ انہیں کمائی کے لیے اِدھر اُدھر دوڑنا نہ پڑے ۔ ہم نے اس واقعہ کے ایک عینی شاہد ابو خان میوہ فروش سے بات کی انہوں نے بتایا کہ اگر یہ صاحب فوری حرکت میں نہ آتے تو اُس وقت کیا ہوتا اس کا تصور کر کے بھی جسم میں لرزہ طاری ہوجاتا ہے ۔ سب سے اچھی بات یہ ہوئی کہ اکبر علی نے گاڑی کے عقبی حصہ سے آگ کے شعلہ نکلتے دیکھ کر فوری کار کو روک لیا کیوں کہ بقول اس سینئیر ہوم گارڈ کے کار کے عقبی حصہ میں پٹرول یا ڈیزل ٹینک ہوتا ہے اور آگ پکڑنے پر یہ ٹینکس بآسانی پھٹ سکتے ہیں ۔ اس لیے انہوں نے فوری گاڑی رکائی اور اس میں موجود لوگوں کو اتار لیا ۔ بہر حال محکمہ پولیس اس طرح کے عہدہ داروں کی قدر دانی اور حوصلہ افزائی کرے کیوں کہ یہ وہ ملازمین ہیں جنہوں نے عوام میں پولیس کی شبیہہ بہتر بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔۔