سابق آئی بی عہدیدار اور دیگر تین شامل ‘ مرکزی وزارت داخلہ کا اقدام
نئی دہلی۔8جون ( سیاست ڈاٹ کام ) 11سال طویل تحقیقات کا اختتام کرتے ہوئے حکومت نے سی بی آئی کی ایک درخواست مسترد کردی ‘ جس میں آئی بی کے چار عہدیداروں بشمول سبکدوش اسپیشل ڈائرکٹر راجندر کمار پر مقدمہ چلانے کیلئے منظوری طلب کی گئی تھی جو مبینہ طور پر عشرت جہاں اور دیگر تین افراد کی ہلاکت کی سازش میں ملوث تھے ۔ مرکزی وزارت داخلہ نے سی بی آئی کی جانب سے پیش کردہ دستاویزات کا جائزہ لینے کے بعد محکمہ کی درخواست مسترد کردی ۔ سرکاری ذرائع کے بموجب تاہم ان وجوہات کی تفصیلات کا انکشاف نہیں کیا گیا جن کی بناء پر منظوری مسترد کی گئی ہے ۔سی بی آئی نے دلیل دی تھی کہ اس مقدمہ میں قطعی رپورٹ وزارت داخلہ کو پیش کی جاچکی ہے جو اس کو کنٹرول کرتا ہے ۔ آئی بی کے ارکان عملہ پر بھی دو سال قبل مرکزی وزارت داخلہ کا ہی کنٹرول تھا ۔ کئی بار تذبذب کا اظہار کرنے کے بعد سی بی آئی اور مرکزی وزارت داخلہ نے قطعی آخری فیصلے میں حال ہی میں کہا کہ سابق انٹیلجنس بیورو ڈائرکٹر آصف ابراہیم کی جانب سے ان کے عہدیداروں پر مقدمہ چلانے کی اجازت دینے کا اقدام جب کہ وہ سبکدوش نہیں ہوئے تھے ۔ گذشتہ سال ڈسمبر میں کیا گیا تھا ۔ سی بی آئی کو مرکزی وزارت داخلہ کے فیصلہ سے واقف کروادیا گیا ہے کہ کمار اور دیگر تین کو عشرت جہاں کے قتل کے مقدمہ میں ماخوذ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ یہ 19سال قدیم ممبرا کالج کی طالبہ اور دیگر تین کا انکاؤنٹر تھا جو 2004میں احمد آباد کے مضافات میں کیا گیا تھا ۔ کمار 1979ء بیاچ کے آئی پی ایس عہدیدار ہیں جو دو سال قبل سبکدوش ہوئے تھے اور انہیں احمدرآباد کا جوائنٹ ڈائرکٹر مقرر کیا گیا تھا جب کہ عشرت جہاں کے انکاؤنٹر کا واقعہ پیش آیا تھا ۔ سی بی آئی سابق آئی بی عہدیدار سے دوبار تفتیش کرچکی ہے کہ انکاؤنٹر پر عمل آوری کی سازش میں ان کا کیا کردار تھا ۔ سی بی آئی کے ذرائع کا ادعا ہے کہ انہوں نے گواہوں سے جراح کی تھی ‘ وہ ان عہدیداروں میں شامل تھے جنہوں نے عشرت جہاں سے اُس وقت جرح کی تھی جب کہ وہ مبینہ طور پر غیرقانونی حراست میں گجرات پولیس کی جانب سے رکھی گئی تھی ۔ بعد ازاں اسے ایک انکاؤنٹر میںہلاک کردیا گیا ۔ مبینہ طور پر کمار سے تفصیل سے سوالات کئے گئے تھے جو دیاگر معلومات کے علاوہ مبینہ تفتیش کی بناء پر تھے جو امکانی شبہ کی بناء پر ان سے کئے گئے تھے کہ وہ اس انکاؤنٹر کی سازش میں ملوث تھے ۔ ریٹائرڈ آئی پی ایس عہدیدار پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے سراغ رسانی معلومات حاصل کی ہیں کہ لشکر کے دہشت گردوں کا ایک گروپ احمدآباد آرہاہے تاکہ چیف منسٹر گجرات نریندر مودی کو نشانہ بنایا جاسکے ۔ اس مقدمہ کے تقریباً تمام ملزم عدالت کی جانب سے ضمانت پر رہا کئے جاچکے ہیں ۔ آئی پی ایس عہدیدار ڈی جی ونزارا اور پی پی پانڈے کو فبروری میں این کے امین کو جو ایک اور ملزم تھے ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے ۔ انکاؤنٹر میں عشرت جہاں ‘ اس کا دوست پرنیش پلے عرف جاوید شیخ اور دیگر دو مشتبہ پاکستانی امجد علی رانا اور ذیشان جوہر کو گجرات کرائم برانچ کے عہدیداروں نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا ۔ بعد ازاں کرائم برانچ نے ادعا کیا تھا کہ یہ چاروں لشکرطیبہ کے کارکن تھے جو چیف منسٹر نریندر مودی کو ہلاک کرنے کیلئے گجرات آئے تھے ۔