آفرین سردار علی
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ انصار کے ایک شخص کے جنازہ کے ساتھ قبر تک پہنچے۔ ابھی قبر تیار نہیں ہوئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے اور ہم لوگ آپﷺ کے اردگرد اس طرح بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپﷺ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی، جس سے آپ زمین کرید رہے تھے۔ اسی حالت میں آپﷺ نے اپنا سر مبارک اوپر اٹھایا اور دو یا تین بار ارشاد فرمایا کہ ’’تم لوگ عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو‘‘۔ پھر فرمایا: ’’جب بندۂ مؤمن دنیا سے رخصت ہوکر آخرت کی طرف بڑھتا ہے تو اس کی طرف آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں، جن کے چہرے ایسے سفید فام ہوتے ہیں، جیسے روشن سورج ہو۔ اپنے ساتھ وہ جنت کا کفن اور خوشبو لئے اس کے پاس آکر تاحد نگاہ بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر ملک الموت کی آمد ہوتی ہے، جو اس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے پاکیزہ روح! اللہ کی مغفرت اور اس کی رضا کی طرف کوچ کر‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’اس کی روح اس طرح نکلتی ہے جیسے مشکیزہ سے پانی کا قطرہ ٹپکتا ہے۔ فرشتہ جوں ہی اس کی روح قبض کرتا ہے، آنکھ جھپکتے ہی دوسرے فرشتے اس کو ہاتھوں ہاتھ لے کر اس کو کفن اور خوشبو میں رکھ دیتے ہیں، جس سے ایسی خوشبو آتی ہے،
جو زمین پر پائی جانے والی مشک سے بھی عمدہ خوشبو ہے‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا ’’وہ اس کو لے کر اوپر چڑھتے ہیں اور فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے بھی گزرتے ہیں وہ دریافت کرتے ہیں کہ یہ پاکیزہ روح کس کی ہے؟۔ وہ کہتے ہیں فلاں بن فلاں کی۔ وہ اس کو اس کے بہترین نام سے یاد کرتے ہیں، جس سے وہ دنیا میں پکارا جاتا تھا، یہاں تک کہ وہ قریبی آسمان تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر اس کی خاطر دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں تو کھول دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ قریبی آسمان تک پہنچ جاتے ہیں۔ پھر اس کی خاطر دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں تو کھول دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ قریبی آسمان تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس آسمان کے مقرب ترین فرشتے اگلے آسمان تک اسے الوداع کہہ کر آتے ہیں۔ یہ سلسلہ ساتویں آسمان تک چلتا ہے۔ اس پر اللہ تعالی فرماتا ہے: میرے بندے کا نامۂ اعمال علین میں لکھ دو اور اس کو پھر زمین کی طرف لوٹادو، اس لئے کہ میں نے اسے اس مٹی سے پیدا کیا اور پھر اس میں لوٹاتا ہوں اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی روح دوبارہ اس کے جسم میں ڈال دی جاتی ہے، پھر دو فرشتے آکر اسے اُٹھاکر بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں: تیراب کون ہے؟۔ وہ جواب دیتا ہے: میرا رب اللہ ہے۔ پھر سوال کرتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟۔ وہ کہتا ہے: میرا دین اسلام ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، جو تمہارے پاس نبی بناکر بھیجا گیا تھا؟۔ وہ کہتا ہے: وہ اللہ کے رسول ہیں۔ پھر وہ دونوں پوچھتے ہیں: تمھیں اس کا علم کیسے ہوا؟۔ وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، پھر اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔ اس کے بعد آسمان سے ایک پکارنے والا پکارتا ہے: میرے بندے نے سچ کہا، اس کے لئے جنت کافرش بچھادو، جنت کے کپڑے پہنادو اور جنت کی طرف ایک دروازہ کھول دو‘‘۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کے پاس جنت کی خوشبودار ہوا آنے لگتی ہے، قبر اس کے لئے تاحدنگاہ وسیع کردی جاتی ہے‘‘۔آپﷺ نے فرمایا ’’اس کے پاس ایک خوب رو، خوش پوش اور معطر شخص آتا ہے اور کہتا ہے: میں تجھے ایک ایسی بشارت دیتا ہوں، جو تیرے لئے خوشی کا باعث ہے۔ یہ وہ دن ہے جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ پوچھتا ہے: تو کون ہے؟ ایسا چہرہ تو اچھی ہی خبر لاسکتا ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’میں تیرا نیک عمل ہوں‘‘۔ پھر وہ ( مردہ ) کہتا ہے: ’’اے میرے رب! قیامت برپا کردے، تاکہ میں اپنے اہل و عیال اور مال کے پاس واپس پہنچ جاؤں‘‘۔
جب کافر بندہ دنیا سے رخصت ہوکر آخرت کی طرف جاتا ہے تو اس وقت آسمان سے سیاہ فام فرشتے نازل ہوتے ہیں، جو اپنے ساتھ ٹاٹ لیے ہوتے ہیں اور تاحدنگاہ بیٹھ جاتے ہیں۔ پھر ملک الموت آکر اس کے سرہانے بیٹھ جاتا ہے اور کہتا ہے: اے خبیث روح! تو اللہ کے غضب اور ناراضگی کی طرف چل‘‘۔ آپﷺ نے فرمایا: چنانچہ اس کی روح خوف کے مارے جسم میں اِدھر اُدھر چھپنے لگتی ہے۔ فرشتہ اس کے جسم میں داخل ہوکر اس کی روح اس طرح نکالتا ہے، جیسے گوشت والی نوک دار سیخ بھیگی اُون سے نکالی جاتی ہے۔ موت کا فرشتہ جیسے ہی اس کی روح قبض کرتا ہے، پلک جھپکتے ہی دوسرے فرشتے اس کو ٹاٹ میں رکھ دیتے ہیں، جس سے انتہائی سڑے گلے مردار کی بدبو آتی ہے۔ فرشتے جیسے جیسے اس کو لے کر اوپر چڑھتے ہیں اور وہ فرشتوں کی جس جماعت کے پاس سے گزرتے ہیں، وہ دریافت کرتے ہیں: یہ خبیث روح کس کی ہے؟ وہ کہتے ہیں فلاں بن فلاں کی۔ وہ اس کو اس بدترین نام سے یاد کرتے ہیں، جس سے وہ دنیا میں پکارا جاتا تھا۔ اسی طرح وہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں اور اس کے لئے دروازہ کھلوانا چاہتے ہیں، مگر دروازہ نہیں کھولا جاتا۔ اس موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آیت تلاوت فرمائی: ترجمہ: ’’ان کے لئے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے۔ ان کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا‘‘۔
اس موقع پر اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: ’’اس کے نامۂ اعمال کو سجین میں لکھ دو، جو زمین کے نچلے حصے میں ہے‘‘۔ پھر اس کی روح کو انتہائی حقارت سے پھینک دیا جاتا ہے۔ پھر آپﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ترجمہ: ’’اور کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا کہ وہ آسمان سے گرگیا، اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اس کو ایسی جگہ جاکر پھینک دے گی، جہاں اس کے چتھڑے اُڑ جائیں گے‘‘۔ پھر اس کی روح دوبارہ اس کے جسم میں ڈال دی جاتی ہے، اس کے بعد دو فرشتے آکر اسے بٹھاتے ہیں۔ پھر پوچھتے ہیں: تیرارب کون ہے؟۔ وہ کہتا ہے: ہائے افسوس! میں نہیں جانتا۔ پھر پوچھتے ہیں: تیرا دین کیا ہے؟۔ وہ جواب دیتا ہے: ہائے افسوس میں نہیں جانتا۔ پھر پوچھتے ہیں: اس شخص کے بارے میں تیری کیا رائے ہے، جو تمہارے درمیان رسول بناکر بھیجے گئے تھے؟۔ وہ کہتا ہے: ہائے افسوس! میں نہیں جانتا۔ اس کے بعد آسمان سے ایک منادی پکارتا ہے: اس نے جھوٹ کہا، اس کے لئے آگ کا فرش بچھادو، اس کے لئے جہنم کا ایک دروازہ کھول دو۔ پھر اس کے پاس جہنم کی گرمی اور لُو آنے لگتی ہے۔ قبر بھی ایسی تنگ کردی جاتی ہے کہ پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہوجاتی ہیں۔ اس کے پاس ایک بدنما، میلے کچیلے کپڑے اور گندی بو والا شخص آتا ہے اور کہتا ہے: میں تجھے ایک ایسی خبر دیتا ہوں جو تیرے لئے تکلیف دہ ہے۔ یہ وہ دن ہے، جس کا تجھ سے وعدہ کیا گیا تھا۔ وہ کہتا ہے: تو کون ہے؟ ایسا چہرہ تو بُری خبر ہی لاسکتا ہے۔ وہ کہتا ہے: میں تیرا خبیث عمل ہوں۔ وہ کہتا ہے: اے میرے رب! قیامت برپا نہ کرنا‘‘۔ (مسند احمد بن حنبل، ج۳، ص۲۸۷، ۲۸۸)
اس طویل حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انتہائی سوزوگداز کے ساتھ عالم برزخ اور قبر کے حالات بیان فرمائے ہیں۔ آپﷺ نے توجہ دلائی ہے کہ انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے ہمیشہ آخرت کو پیش نظر رکھے اور وہاں کی کامیابی کے لئے جدوجہد کرتا رہے۔ کسی کو پتہ نہیں کہ اس کی دنیا کی زندگی کب ختم ہوجائے گی اور کب اسے اپنے آپ کو موت کے فرشتوں کے حوالے کرنا ہوگا۔ ہر انسان اپنے نیک و بد اعمال کے پیش نظر اپنے اچھے یا برے نتیجے سے دوچار ہوگا۔
انسان کسی بھی مذہب، مسلک اور نظریہ کا ماننے والا ہو، اُسے دفن کیا جائے، جلایا جائے یا پانی میں غرق کردیا جائے، یا کسی اور طریقے سے موت کے بعد اس کی نعش کو دوچار کیا جائے، بہر حال اُسے عالم برزخ میں پہنچنا ہے اور اپنے عقیدے اور عمل کے لحاظ سے کامیابی یا ناکامی کا منہ دیکھنا ہے۔ پھر قبر اس کے لئے یا تو جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ثابت ہوگی یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا!۔ اللہ رب العزت ہم سب کو ایمان اور عمل صالح کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور جہنم کی آگ سے محفوظ رکھے۔ (آمین)