پیشہ تدریس مقدس پیشہ ، اساتذہ سے ہی بچوں کو مستقبل کی رہبری

سائنس ٹیچرس ورکشاپ کا افتتاح ، ڈاکٹر قاضی سراج اظہر امریکہ کا خطاب
حیدرآباد ۔ 3 ۔ اکٹوبر : ( دکن نیوز ) : ماہر تعلیم ڈاکٹر قاضی سراج اظہر نے اساتذہ پر زور دیا کہ پیشہ تدریس ایک مقدس وجوابدہ پیشہ ہے ۔ اس لیے یہ بات ہمیشہ مد نظر رکھتے ہوئے بڑی احتیاط و منصوبہ بندی کے ساتھ طلباء کی صلاحیتوں کو چانچیں اور اسے بروئے کار لایا جائے ۔ استاد ہی بچہ کو ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک رہبری و رہنمائی بہتر انداز سے کرسکتا ہے ۔ بچہ جو استاد کے ذریعہ سیکھتا ہے اسے وہ ذہن نشین کرتے جاتا ہے اور استاد کے مسلسل پڑھانے سے بھی اس میں اکتاہیت پیدا ہوتی ہے ۔ اس لیے تعلیم کے دوران اسے کہانیاں ، مزاحیہ خاکے اور ایسے دلچسپ پہلوؤں کو پیش کریں کہ بچہ میں اسکول کی طرف آنے اور کلاس میں بیٹھ کر استاد کی بات کو سننے کا ذوق و شوق پیدا ہوسکے ۔ پرکاشم ہال ، گاندھی بھون میں ’ نیشنل سائنس فیر اکیڈیمی حیدرآباد ‘ کے سائنس ٹیچرس کے لیے دو روزہ ورکشاپ سے کیا ۔ پہلے روز کے اس ورکشاپ کا اہتمام ملت فاونڈیشن اور ایم ایس ایجوکیشنل سوسائٹی کی جانب سے کیا گیا جس میں اساتذہ ، لکچررس ( مرد و خواتین ) کی کثیر تعداد میں شرکت کی ۔ ڈاکٹر قاضی سراج اظہر نے 21 ویں صدی میں کس طرح سیکھنا اور پڑھایا جائے کہ موضوع پر پروجکٹر کی مدد سے بتاتے ہوئے کہا کہ جب عورت حاملہ ہوجاتی ہے تو دوران حمل ہی ماں کے حمل و نقل ، گفتگو ، سونچ و فکر کو وہ اپنے ہارمونس کے ذریعہ سیکھتا ہے اس لیے حمل میں ہی ایک عورت کو بڑی احتیاط برتنی چاہئے اور کوئی ایسا عمل و معاملہ نہ کرے نومولود پر اس کا کوئی اثر پڑسکے ۔ انہوں نے کہا کہ بچہ کی عمر کے ابتدائی دو سال کا مرحلہ بڑا نازک اور ایک سال کی عمر میں بچہ میں پہنچاننے کی قوت بھی پیدا ہوجاتی ہے اور معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ والد اور والدہ کو پہچاننے لگتا ہے وہ اپنا ہاتھ آگے بڑھاتے ہیں تو وہ بھی ہاتھ کو آگے بڑھاتا ہے ۔ ابتدائی ہی سے بچوں میں چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ابھارنے کے لیے انہیں مقوی غذائیں دیں جس سے بچہ میں سیکھنے کی بڑی اور تیزی خواہش و حس پیدا ہوتی ہے ۔ ان دنوں بعض گھرانوں میں والدین اور بھائیوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا نظم آہستہ آہستہ ختم ہوتے جارہا ہے ۔ مل جل کر رہنے سے فائدہ یہ ہوگا کہ بچہ میں اپنے دادا دادی سے محبت ، قدر ، خوف اور وہ بہت کچھ سیکھنے کی طرف مائل ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ دور حاضر میں تعلیمی اداروں میں تجارتی رجحان بڑھ چکا ہے ۔ فیس کی من مانی ، ڈسپلن کا خاتمہ اور معیاری تعلیم کا فقدان ہے ۔ انہوں نے بچوں کو ٹی وی سے دور رکھنے کی سخت تاکید کی۔ انہوں نے کہا کہ افسوس کا پہلو یہ بھی ہے کہ اسکولس میں تو بڑے طمطراق کی باتیں کی جاتی ہیں لیکن عمل ندارد ہوتا ہے ۔ اس لیے طلباء سائنسی مضمون میں کمزور نظر آتے ہیں ۔ انہوں نے کلاس روم میں استاد اور طلباء کے درمیان بے اعتنائی ، عدم دلچسپی ، دوستانہ ماحول ، بچوں کی دماغی صلاحیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ۔ سید مصباح الدین نے کہا کہ ان دنوں لڑکوں اور لڑکیوں میں تعلیم کی طرف رجحان بڑھتا جارہا ہے ۔ ایسے وقت میں تعلیم کے ساتھ استادوں کا تجربہ کار اور ان کی تربیت کا ہونا بے حد ضروری ہے ۔ انہوں نے جدید انداز سے مختلف طور و طریق بھی بتائے ۔  حکومت نے بچوں پر کتابوں کا جو بوجھ ڈالدیا ہے مگر ان کے لیے تربیت کا کوئی نظم نہیں ہے ۔ محترمہ افروز بانو اسسٹنٹ ڈائرکٹر ایم ایس ایجوکیشن نے کہا کہ صرف تعلیم کا حاصل کرلینا ہی ضروری نہیں ہے بلکہ تربیت کی سخت ضروری ہے ۔ آج کے اس لکچر میں ڈاکٹر رفیق احمد ، محمد ظفر احمد ، ایم ایس فاروق ، ڈاکٹر ناظر ، ڈاکٹر ادی نارائن ، ڈاکٹر سید غوث الدین ، ڈاکٹر کرشا ، راجو نائیڈو ، منظور احمد اور دوسرے موجود تھے ۔ سیدہ فاطمہ النساء نے کارروائی چلائی ۔ غفور النساء ، امتہ الحی فاطمہ ، نسرین فاطمہ ، سعدیہ اور دیگر نے شرکت کی ۔ عبدالرحمن نے پروگرام کے انتظامات میں حصہ لیا ۔۔