کیا واقعی ہر اگ گلِ تر خون میں تر ہے
یا دیکھنے والے کی نظر خون میں تر ہے
پیرس حملہ آوروں کی شناخت ضروری
فرانس میں ایک ہفتہ وار اخبار کے دفتر پر حملے نے ساری دنیا میں مسلم برادری کو ایک بار پھر اسلام دشمن عناصر کی نظروں میں مشکوک بنادیا ہے۔ مسلمانوں کی تنظیموں نے اس حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ حملہ آور کسی مذہب کی نہیں شیطان کی پیروکاری کرتے تھے۔ دہشت گردوں کی جانب سے صحافیوں اور پولیس آفیسرس کو نشانہ بنانے کے واقعہ کے خلاف کئی مسلم گروپس نے کہا ہیکہ مسلمان اور مسیحی متحد ہوکر انتہاء پسندی کا مقابلہ کریں۔ صدر مسلم فرانس دلیل ابوبکر نے اسلام کے نام پر لوگوں کی جان لینے کی مذمت کی ہے کیونکہ اسلام کسی انسان کی جان لینے کی مخالفت کرتا ہے۔ اب فرانس کے بشمول تمام دنیا کے مسلمان اس واقعہ کے باعث صدمہ سے دوچار ہیں۔ فرانس میں اس سے قبل ایک شہری نے فوجیوں اور راہبوںکو بھی نشانہ بنایا تھا کہ کئی فرانسیسی نوجوان مشرق وسطیٰ کے ممالک جاکر داعش کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ایک طرف انٹرنیٹ کے ذریعہ نوجوانوں کو انتہاء پسندی کی طرف ڈھکیلا جارہا ہے دوسری طرف اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کی دل آزاری کرتے ہوئے بے چینی پیدا کررہی ہیں۔ اظہارخیال کی آزادی کے نام پر مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی حرکتیں بھی ناقابل قبول ہوتی ہیں۔ فرانس کے اخبار نے شان رسالت ؐ میں گستاخانہ کارٹونس شائع کرکے مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کا منظم طریقہ اختیار کیا ہے۔ اس سے قبل ڈنمارک کے اخبار نے اس طرح کے کارٹونس شائع کرکے ساری دنیا کے مسلمانوں کو غم و غصہ سے دوچار کردیا تھا۔ ایک طاقت اپنی من مانی کو جائز قرار دے کر توہین آمیز حرکتیں کرتی ہے تو دوسری طاقت شدید ردعمل کے ذریعہ خون خرابے پر اتر آتی ہے۔ اس سے دنیا کے امن کے لئے خطرہ پیدا کیا جاتا ہے۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہفتہ وار اخبار ’’چاری ایبڈو‘‘ نے قابل اعتراض کارٹونس شائع کئے۔ اس اخبار کی کٹر نظریاتی اور توہین اسلام پالیسی نے مسلمانوں کی مسلسل دلآزاری کی ہے۔ ردعمل کے طور پر اگر شدت پسندوں نے حملے کئے ہیں تو اس کارروائی کے لئے ساری مسلم برادری کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ فرانسیسی اخبار کے دفتر پر 3 مسلح افراد نے حملہ کرکے 8 صحافیوں اور دو پولیس ملازمین سمیت کم از کم 12 افراد کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کردیا تھا۔ فرانس میں چہارشنبہ کو ہونے والے حملے کو کئی دہائیوں میں سب سے جان لیوا حملہ قرار دیاگیا ہے۔ نہتے لوگوں کو بزدلانہ انداز میں قتل کرنے کی ہر کوئی مذمت کرتا ہے مگر اظہارخیال کی آزادی کو اپنا حق سمجھنے والوں کو یہ غور کرنا ضروری ہے کہ اس آزادی کی آڑ میں وہ کسی خاص فرقہ یا طبقہ کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا لائسنس نہیں رکھتے۔ اس حملے کو ظالمانہ اور غیر انسانی فعل قرار دینے والوں کو اخبار کی اشتعال انگیزی کا بھی نوٹ لینا چاہئے۔ سماجی رابطوں کو خوشگوار ماحول میں فروغ دینے کے بجائے کوئی دل آزاری کا راستہ اختیار کرتا ہے تو یہ قابل قبول حرکت نہیں کہلاتی۔ فرانس میں مخالف اسلام پالیسیوں اور اسلام دشمنی رکھنے والی طاقتوں کی سرکاری سرپرستی سے بھی حالات کشیدہ ہورہے ہیں۔ حکومت فرانس نے اپنے ملک کے عوام کی سلامتی کے لئے اگر مضبوط قوانین نافذ کرنے کے اقدامات کئے ہیں تو اسے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے واقعات اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ فرانس میں مقیم مسلمانوں کی اکثریت امن پسند ہے۔ ان میں سے چند ایک نے اگر ہتھیار اٹھا لیا ہے تو یہ حکومت کی پالیسیوں اور اسلام دشمن طاقتوں کی من مانی کا جواب ہوسکتا ہے۔ فرانس میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف منظم طریقہ سے جو اقدامات ہورہے ہیں اسکے نتائج بھی بھیانک برآمد ہورہے ہیں۔ کچھ طاقتیں اسلام کو بدنام کرنے کے لئے فرضی ناموں سے ایسی کتابوں کی اشاعت عمل میں لا رہے ہیں جس میں اسلام اور مسلمانوں کو شدت پسند ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پیرس کے اخبار پر حملے کے پیچھے کس منظم اور گروپ کا ہاتھ ہے اس کا پتہ چلا کر حقائق کو منظرعام پر لانا ضروری ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں کی سرکوبی کے لئے حکومت فرانس کو بھی اپنی مخالف اسلام پالیسی ترک کرنی ہوگی۔ فرانس میں دائیں بازو کے سیاستداں اپنے اسلام مخالف ایجنڈے کو خفیہ طریقہ سے انجام دے رہے ہیں۔ بعض گروپس نے اسلام کو خوفناک طریقہ سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلامائزیشن کے مسئلہ کو اجاگر کرکے غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں۔ ساری دنیا میں مذہبی منافرت پھیلا کر سماج کے گروپس کو مختلف خانوں میں تقسیم کرنے کی سازشیں روکنے کی ضرورت ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کے دوہرے معیارات کے باعث بھی بعض گروپس میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہورہا ہے۔ حکومت فرانس کو یہ پتہ چلانا ضروری ہیکہ حملہ آوروں کا تعلق کس گروپ سے ہے۔