… گزشتہ سے پیوستہ …
ابوجہل سے پیچھا چھڑاکر سیدھے اپنے گھر تشریف لائے ۔ غلبہ شوق اور جذب طلب نے اتنی بھی مہلت نہیں لینے دی کہ سامان اُتارکر گھر میں قدم رکھتے ، اسی مسافرانہ سج دھج میں بنوہاشم کے قیبلے کی طرف نکل پڑے ۔ سیدھے ابوطالب کے گھر پہنچے اور سرکارِ اقدس کی بابت دریافت کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ کوہ بوقبیس کی طرف تشریف لے گئے ہیں۔ ایک نامعلوم وارفتگیٔ شوق کے عالم میں جیسے ہی وہ کوہ بوقبیس کے قریب پہنچے دیکھا کہ دامن کوہ میں سرکار ایک چٹان پر تشریف فرما ہیں ۔ عارضِ تاباں سے رحمت و نور کا آبشار پھوٹ رہا ہے ۔ قدموں کی آہٹ پاتے ہی رُخ اُٹھاکر دیکھا اور مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا : ’’مرحبا اھلًا و سھلاً: مبارک ہو تمہارا آنا مبارک ہو ‘‘ ۔ خیرمقدم کا انداز بتارہا تھا کہ وہ یوں ہی نہیں بیٹھے تھے کسی نئے آنے والے کا انتظار تھا انھیں۔
اعلانِ نبوت کے بعد حضرت ابوبکر کی یہ بالکل پہلی ملاقات تھی ۔ مسرتوں کے انوار سے سرکار کاچہرہ جگمگارہا تھا ۔ کیوں نہ ہو کہ آج اُمت مرحومہ کی بنیاد پڑنے والی تھی ۔ حضرت ابوبکر اپنے نوشتۂ تقدیر کا انجام دیکھنے کیلئے حیرانی کے عالم میں خاموش کھڑے ہی تھی کہ گل قدس کی پتیوں کو حرکت ہوئی اور کشوردل کو فتح کرنے والی ایک آواز فضا میں بکھرگئی: ’’ابوبکر ! کلمۂ حق کی طرف سبقت کرنے میں پیچھے آنیوالوں کا انتظار نہ کرو ، خدا کا آخری پیغمبر تمہیں حیات سرمدی کی دعوت دے رہا ہے اسے بغیر کسی پس و پیش کے قبول کرو ‘‘ ۔
حضرت ابوبکر نے سرجھکائے ہوئے جواب دیا : ’’خدا کے رسولوں کے متعلق میں نے سنا ہے کہ جب وہ دنیا میں مبعوث ہوتے ہیں تو منصب رسالت کی تصدیق کے لئے اپنے ہمراہ کچھ نشانیاں لے کر آتے ہیں۔ میں بھی اپنے تئیں اطمینان قلب کے لئے کسی نشانی کا امیدوار ہوں‘‘۔
سرکار رسالت نے حضرت ابوبکر کی طرف دیکھا کر فرمایا : ’’نشانیوں سے گزرنے کے بعد بھی تمہیں اب تک نشانی کی احتیاج باقی رہ گئی ہے ؟ کلیسا کی اُس سنسان رات کو ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں ۔ یاد کرو ! تمہاری داہنی کلائی کا تل دیکھ کر شام کے راہب نے تم سے کیا کہا تھا ؟ میری رسالت کی تصدیق کیلئے کیا آسمانی صحائف کے وہ نوشتے کافی نہیں ہیں جنھیں رات کی تنہائی میں اُس بوڑھے راہب نے تمہیں پڑھ کر سنائے تھے ؟ پھر تمہاری روح کا وہ اضطرابِ مسلسل جس نے تمہاری آنکھوں کی نیند اُڑادی ہے اور جو تمہیں غبار آلود چہرے کے ساتھ کشاں کشاں کھینچ کر یہاں لایا ہے کیا میری رسالت کے اقرار کے بغیر بھی اس کی تسکین کا اور کوئی سامان ہوسکتا ہے ؟ ‘‘
فرطِ حیرت سے حضرت ابوبکر پر ایک سکتے کی کیفیت طاری ہوگئی ۔ سارا وجود حقیقت کے بے نقاب جلوؤں میں شرابور ہوکے رہ گیا ۔ جذبات کے ہیجان میں بے محابا چیخ اُٹھے ۔’’ اب مجھے کسی اور نشانی کا انتظار نہیں ہے۔ اپنی آنکھوں کے روزن سے جو ہزاروں میل کی مسافت پر پیش آنے والے واقعات کا تماشائی ہو یہ شان سوائے رسول برحق کے اور کس کی ہوسکتی ہے؟ جو عالم فانی کے مخفی اُمور کو بالکل مشاہدات کی طرح جانتا ہے ۔ اس کے متعلق یہ عقیدہ رکھنے میں اب کوئی تامل نہیں ہے کہ وہ عالم بالا کی حقیقتوں سے بھی یقینا باخبر ہے۔
دل تو پہلے ہی مومن ہوچکا تھا اب زبان سے بھی اقرار کرتا ہوں کہ آپ اﷲ کے سچے رسول ہیں اور خدائے واحد کے سوا کوئی پرستش کے قابل نہیں ہے ‘‘۔
اسلام کی تاریخ میں توحید و رسالت کا یہ پہلا اقرارتھا جو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کی غیب دانی کے پس منظر میں منصہ شہود پر آیا ۔ اب ذرہ عقل ناہنجار کی فتنہ سامانی دیکھئے کہ جس عقیدے کو قبول کرکے تاریخ کا سب سے پہلا مسلمان عالم ظہور میں آیا وہی عقیدہ آج کے بداندیشوں کے تئیں حلقۂ اسلام سے اخراج کا ذریعہ بن گیا ہے ۔ اور صرف ایک حضرت صدیق ہی نہیں تاریخ کے صفحات پر بے شمار ہستیاں ہیں جن کے اسلام کا محرک رسول پاک صاحب لولاک کی غیب دانی ہے ۔ سرکار کا یہ وصف شریف کسی کی ذاتی سرگزشت تک محدود نہ تھا بلکہ دنیائے عرب میں اس کی اتنی عظیم شہرت تھی کہ لوگ گھروں میں اپنی عورتوں سے باتیں کرتے ہوئے ڈرتے تھے کہ کہیں سرکار سُن نہ لیں۔
حضور کی غیب دانی کے بارے میں مکے کے مشرکین کا عام عقیدہ تھا کہ کسی بھی واقعہ پر مطلع ہونے کیلئے اُنھیں کسی مخبر کی ضرورت نہیں دیواروں کے ذرے اور رہگذر کے سنگریزے انھیں خبر دیتے ہیں۔
اسی ابوجہل کے متعلق یہ واقعہ عوام و خواص میں مشہور ہے کہ منصب رسالت کی آزمائش کے لئے وہ چند کنکریاں مٹھی میں چھپائے ہوئے حاضر ہوا اور کہاکہ اگر آپ رسول ہیں اور آسمان و زمین کے اسرار کی خبر رکھتے ہیں تو بتائیے میری بند مٹھی میں کیاہے ؟
ابوجہل جیسے شقی و منکر کو بھی یہ اعتراف تھا کہ رسول کیلئے غیب دانی لازم ہے جو رسول ہوگا اُسے زمین و آسمان کے اسرار کی یقینا خبر ہوگی لیکن یہ آج کے کلمہ گو ہیں جو رسول پاک کی غیب دانی کا انکار کرتے ہوئے ابوجہل سے بھی نہیں شرماتے ۔ (ختم شد)