حیدرآباد 29 نومبر (سیاست نیوز) عوام میں پہلی تاریخ کی خوشی سے زیادہ مایوسی پائی جاتی ہے اور اُن کے ذہنوں میں کئی سوالات اُبھر رہے ہیں۔ تنخواہ ملے گی یا نہیں؟ بینکوں میں جمع ہونے پر مکمل رقم حاصل ہوگی یا نہیں؟ گھر کی ضروریات پوری ہوں گی یا نہیں؟ قرض کی ادائیگی ہوسکے گی یا نہیں؟ غریب اور متوسط طبقہ کے لئے پہلی تاریخ کافی اہمیت رکھتی ہے اور اس کا بے چینی سے انتظار کیا جاتا ہے لیکن 8 نومبر کو وزیراعظم نریندر مودی کے کرنسی بند کرنے کے اعلان نے پہلی مرتبہ عوام کو پریشانی سے دوچار کردیا ہے۔ ایک متوسط گھرانے کی اگر مثال لی جائے تو کرایہ 6 تا 8 ہزار روپئے، دودھ کا خرچ دیڑھ تا دو ہزار روپئے، گھریلو ملازمہ 600 تا 800 روپئے، ترکاری اور گوشت وغیرہ پر دو تا تین ہزار، کرانہ خرچ تین تا پانچ ہزار ، اسکولس فیس 3 تا 5 ہزار، پکوان گیاس سلینڈر 620 روپئے، کیبل بِل 180 تا 200 روپئے، چٹ فنڈ اوسطاً 2 ہزار روپئے، اس طرح ماہانہ 20 تا 23 ہزار روپئے کے اخراجات ہوا کرتے ہیں۔ غریب گھرانوں میں یہ اخراجات کسی قدر کم اور متوسط سے اوپر کے گھرانے میں اس سے بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ پہلی تاریخ کو تنخواہ ملنے کی خوشی کے ساتھ ساتھ ایک مہینے کے اخراجات کی پابجائی کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔ اکثر لوگ کرانہ اسٹور ، دودھ وغیرہ اُدھار خریدنے کے بعد ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو ادائیگی کرتے ہیں۔ اِس طرح پہلی کی جو اہمیت ہے پہلی مرتبہ عوام کے لئے ایک پریشان کن مسئلہ بن گئی ہے۔ کرنسی بند کرنے کے 22 دن کے بعد بھی بحران برقرار ہے ۔ تاجرین، ڈیلرس اور مختلف شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے پریشان ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ پہلی کیا اثر دکھائے گی۔