پہاڑی شریف میں غریب مسلم میتوں کی تدفین کیلئے اراضی الاٹمنٹ تنازعہ کا شکار

سیاسی دباؤ پر مسئلہ تعطل کا شکار ، اقلیتی بہبود کو مضافات میں وقف اراضی کی تلاش ، وقف کی اراضی اب باقی نہیں رہی
حیدرآباد۔ /26 فبروری ، (سیاست نیوز) شہر کے مضافاتی علاقہ پہاڑی شریف میں غریب مسلم خاندانوں کی میتوں کیلئے قبرستان کی اراضی الاٹمنٹ کا مسئلہ تنازعہ کا شکار بن چکا ہے۔ محکمہ اقلیتی بہبود کے عہدیداروں نے شہر میں موجود قبرستانوں میں تدفین کیلئے بھاری رقومات کے مطالبہ کی شکایات اور آبادی میں زبردست اضافہ کو دیکھتے ہوئے لاوارث میتوں اور غریب خاندانوں کی میتوں کی مفت تدفین کیلئے اراضی الاٹ کرنے حکومت کو تجویز پیش کی تھی۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی کے پاس منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس سلسلہ میں پہاڑی شریف میں موجود 10ایکر اوقافی اراضی کی نشاندہی کی گئی لیکن مختلف گوشوں اور بالخصوص سیاسی دباؤ کے تحت یہ مسئلہ تعطل کا شکار ہوچکا ہے لہذا اقلیتی بہبود کے عہدیدار شہر کے مضافات میں وقف کی کھلی اراضی کی تلاش میں ہیں تاکہ اسے قبرستان کیلئے الاٹ کیا جاسکے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ حیدرآباد کے مضافات اور رنگاریڈی ضلع میں کہیں بھی قبرستان کیلئے موزوں اراضی دستیاب نہیں ہے کیونکہ بیشتر کھلی اراضیات پر ناجائز قبضے ہیں۔ اسپیشل آفیسر وقف بورڈ محمد جلال الدین اکبر نے مضافاتی علاقوں میں کھلی اوقافی اراضیات کا جائزہ لینے کیلئے عہدیداروں کے ساتھ دورہ کیا لیکن بتایا جاتا ہے کہ کہیں بھی غیر متنازعہ اراضی دستیاب نہیں ہے جس کے باعث غریب مسلمانوں کی میتوں کی تدفین کیلئے اراضی کا الاٹمنٹ حکومت کیلئے دشوار کن بن چکا ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا تھا کہ پہاڑی شریف میں واقع 10ایکر اراضی کو قبرستان کیلئے الاٹ کیا جائے اور اس کی فوری حصار بندی کا فیصلہ کیا گیا تاہم اس سلسلہ میں ابھی تک محکمہ کی جانب سے باقاعدہ احکامات کی اجرائی عمل میں نہیں آئی۔ یہ اراضی حج ہاوز کی عمارت تعمیر کرنے کیلئے مختص کی گئی تھی لیکن بعد میں اس مقام پر حج ہاوز کی تعمیر کی تجویز سے دستبرداری اختیار کرلی گئی۔ چونکہ یہ اراضی خالی ہے لہذا ڈپٹی چیف منسٹر نے اسے قبرستان کیلئے مختص کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس اراضی کی مارکٹ ویلیو کی اہمیت کے پیش نظر بعض سیاسی گوشے اسے قبرستان کیلئے الاٹ کرنے کی مخالفت کررہے ہیں۔ اسی دباؤ کے تحت حکومت کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہے۔ اس اراضی سے متصل ایک تعلیمی ادارہ کو اراضی الاٹ کی گئی تاہم بتایا جاتا ہے کہ بعض سیاسی اثر و رسوخ رکھنے والے افراد مابقی 10ایکر اراضی پر نظریں لگائے ہوئے ہیں۔ وقف بورڈ اور حکومت کو تجویز پیش کی گئی کہ اس علاقے میں دفاعی ادارہ سے متصل اوقافی اراضی کو قبرستان کیلئے مختص کیا جائے لیکن یہ اراضی مسطح نہ ہونے کے سبب قبرستان کے قابل نہیں۔ دوسری بات دفاعی ادارہ کی جانب سے ادارہ سے متصل قبرستان بنائے جانے کی مخالفت کا اندیشہ ہے۔ ان حالات میں محکمہ اقلیتی بہبود اور وقف بورڈ قبرستان سے متعلق اپنے فیصلہ پر عمل آوری کے سلسلہ میں اُلجھن کا شکار ہیں۔ شہر اور مضافات میں کوئی متبادل اراضی نہیں جہاں قبرستان قائم کیا جاسکے۔ شہر کے قبرستانوں میں غریب خاندانوں کو میتوں کی تدفین میں مشکلات اور رقومات کا مطالبہ کوئی نئی بات نہیں ایسے میں وقف بورڈ کو اپنے فیصلہ پر عمل آوری کیلئے اقدامات کرنے چاہیئے۔ دیکھنا یہ ہے کہ تلنگانہ حکومت قبرستان کیلئے اراضی الاٹمنٹ کے فیصلہ پر کس حد تک عمل کرنے میں کامیاب ہوگی۔