پہاڑپر رہنے والے لوگوں کو گذشتہ چھ سال سے پینے کے پانی کی تکلیف کا سامنا

حلقہ اسمبلی بہادرپورہ کے ایتوروہلز میں عوام کو پینے کا پانی میسر نہیں، عوام دوردراز مقامات سے پانی لانے پر مجبور
حیدرآباد ۔5 مئی( سیاست نیوز ) ۔ موسم گرما میں اگر کوئی چیز کی سب سے زیادہ مانگ ہوتی ہے تو وہ پینے کے پانی کی ہوتی ہے۔کیونکہ گرمی اور دھوپ سے انسان کے جسم کا پانی سوکھ جاتا ہے۔نہ صرف انسان بلکہ جانوراور درخت بھی دھوپ سے متاثر ہوتے ہیں۔جانور ندی نالوں کا رُخ کرتے ہیں تو درخت پانی نہیں ملنے پر مرجاتے ہیں۔پانی زندگی کے لئے بہت اہم اور بنیادی ضرورت ہے، پانی کے بغیر زندگی باقی رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔اسی لئے جہاں پینے کے پانی کی سہولت نہیں ہے وہاں کے لوگ پانی کے لئے کئی کیلومیٹر کی مسافت طئے کرتے ہوئے پانی حاصل کرتے ہیں ۔پرانے شہر کا بھی کچھ یہی حال ہے ،پرانے شہر کے کئی علاقوں میں آج بھی پینے کے پانی کی سربراہی کے کوئی انتظامات نہیں ہیں۔یہاں کے بیشتر علاقوں میں انتہائی غریب طبقے کے لوگ رہتے ہیں۔ایسا ہی ایک علاقہ ایتورو ہلس اور صدام نگر کا ہے۔حلقہ اسمبلی بہادرپورہ کے بلدی ڈیویژن نواب صاحب کنٹہ کے ایتورو ہلس اور صدام نگر کے مکینوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔یہا ں پر سرکاری نل کی سہولت بھی نہیں ہے۔یہاں کے لوگوںکو دور دراز مقامات سے پانی لانا پڑرہا ہے۔گذشتہ پانچ سال سے اس بستی میں کوئی پینے کے پانی کی لائن نہیں ڈالی گئی ، مقامی لوگوں نے اپنے نمائندوں سے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کئی بار نمائندگی کی لیکن مسئلہ کا حل ابھی تک نہیں کیا گیا۔یہاں کے لوگوں نے مقامی کارپوریٹر پرالزام عائد کیاکہ کئی بار یاددہانی کرانے کے باوجود کارپوریٹر نے یہاں کا دورہ نہیں کیا ۔ ایتورو ہلس کی مستان بی نے بتایا کہ پینے کے پانی کے لئے کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ، انہوں نے مزید کہا کہ پہاڑ پر رہنے والے لوگوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے کیونکہ تقریباً ایک کیلو میٹر دور سے پانی اپنے سروں پر اٹھاکر لانا پڑرہا ہے جس کے باعث پیروں اور کمر میں درد ہورہاہے۔مستان بی کی عمر 60سال ہے اور وہ تنہا اپنے مکان میں رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی خواتین نے ہمیں بتایا کہ پانی لانے میں وقت بہت ضائع ہورہا ہے۔سلطانہ بیگم نامی خاتوں نے سیاست کو بتایا کہ پینے کا پانی حاصل کرنے کے لئے کئی گھنٹے قطار میں کھڑے رہنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے تین تا چار گھنٹے برباد ہوجاتے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ کئی بار پانی نہیں ملنے پر مایوس ہوکر لوٹ آنا پڑتا ہے اور بور کا پانی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ا س علاقے کے محمد غوث نے ہمیں بتایاکہ یہاں کے بور میں بھی پانی آنا بند ہوگیا ہے ۔انہوں نے اس کی وجہ یہ بتائی کہ ایک تو پہاڑی علاقہ ہے اور دوسری جانب شدید گرمی نے زمین کے پانی کو سکھا دیا ہے۔ ایتورو ہلس کے مکینوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مقامی لیڈروں اور محکمہ آبرسانی کی شدید نکتہ چینی کی ہے ۔ یہاں کے لوگوں کا کہنا ہے پینے کے پانی کی ایک لائن پہاڑ تک ڈالنے کی بات گذشتہ تین سال سے کی جارہی ہے لیکن اس پر کوئی عمل آوری نہیں ہورہی ہے۔ لوگوں نے سوال کیا ہے کہ کیا انھیں بنیادی سہولت فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی نہیں ہے ۔لوگوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ نئے شہر کے پاش علاقے بنجارہ ہلز اور جوبلی ہلز جیسے مقامات پر جس طرح پانی کی سربراہی عمل میں آتی ہے ٹھیک اُسی طرح یہاں پر بھی پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔تاہم یہاں کے مقامی افراد اپنے ذاتی خرچ سے محکمہ آبرسانی اور مقامی ایم ایل کے پاس اپنی شکایت درج کرانے کے لئے کئی چکر لگاچکے ہیں ۔سید ناصر احمد نے ہمیں بتایاکہ پینے کے پانی کی نئی لائن تنصیب کرنے کے لئے 17.20 لاکھ کا تخمینہ تیار ہوچکا ہے، لیکن انتخابی ضابطہ اخلاق کے نفاذ کی وجہ سے کام میں رکاوٹ پیش آئی ہے۔انہوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ماڈل کوڈ برخاست ہوجانے پر محکمہ کے اعلیٰ عہدیداروں سے ربط پیدا کیا جائے گا تاکہ یہ زیر التوا کام کو جلد از جلد پورا کیا جائے ۔یہاں پر اس بات کا ذکر بیجا نہ ہوگا کہ محکمہ آبر سانی کے اعلیٰ عہدیداروں نے اس علاقہ کا دورہ کرنا بھی گوارا نہیں سمجھا ، اور نہ ہی یہاں کے لوگوں کی تکلیف کی رپورٹ طلب کی ۔ ایتورو ہلس میں تقریباً 50تا 80مکانات ایسے ہیں جہاں پر پینے کے پانی کی لائن نہیں ہے،محکمہ آبر سانی نے یہاں کے لوگوں کو گذشتہ پانچ سال سے پینے کے پانی سے محروم رکھا ہے۔واضح رہے کہ گذشتہ چند روز قبل ریاستی گورنر ای ایس ایل نرسمہن نے محکمہ آبر سانی کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ ایک میٹنگ کی ،جس میںانہوں نے عوام کو صاف اوربھرپور پانی سربراہ کرنے کی ہدایت دی ہے ۔اس کے باوجود محکمہ آبرسانی کا عملہ لاپرواہی سے کام لے رہا ہے۔