مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ
حضرت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے محبوب ترین و مقرب ترین بندے، نبی آخرالزماں خاتم النبیین امام الانبیاء والمرسلین و نبی الانبیاء ہیں بفحوائے حدیث پاک کنت نبیا و ادم بین الماء والطین کی شان رکھتے ہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپ پر کلام الٰہی نازل فرمایا اور دین اسلام کے نور کی تکمیل فرمائی، اسلام کی روشنی بحر و بر، دشت و جبل میں پھیل گئی، ساری دنیا اسلام کے نور سے روشن و منور ہوگئی، اس طرح اسلام کا آخری پیغام دنیا کے تمام خطوں میں پہنچ گیا، یوں تو دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی دنیا میں کئی انقلابات برپا ہوئے، کہیں سماجی انقلاب آیا تو کہیں روحانی، کہیں مذہبی و اخلاقی انقلاب آیا تو کہیں سیاسی، کہیں تہذیب و تمدن بدلے تو کہیں مادی عروج و ترقی پھیلا، لیکن نبی آخرالزماں سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت مبارکہ سے جو دنیا میں انقلاب آیا وہ ایسا عظیم انقلاب تھا کہ جس سے زندگی کے سارے گوشوں میں تبدیلی آئی اور زندگی کی تمام جہتیں اس عظیم انقلاب کے زیرسایہ آگئیں اور ایک مکمل نظام حیات کے طور پر یہ بالکل اول و آخر انقلاب تھا، خود پرستی و بت پرستی کے ماحول میں خدا پرستی کا نظام قائم ہوگیا اور دنیا سے کفر و شرک کی ظلمتیں چھٹیں، نور توحید نے اپنا اُجالا پھیلایا، ظاہر ہے کہ اسلام دشمن قوتیں اور طاغوتی طاقتیں اس انقلاب سے خوش نہیں ہوسکیں، نور توحید سے اپنے سینوں کو منور کرنے کے بجائے
انھوں نے اسلام کے نور کو بجھانے اور اس عظیم انقلاب کو مٹانے کی پیہم جدوجہد میں مصروف ہوگئیں، اسلام، پیغمبر اسلاماور اہل اسلام کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا، تن من دھن کی بازی لگاکر اسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا، ان نامسعود کوششوں کے ذریعہ اسلام دشمنی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت ہونے نہیں دیا، اہل اسلام کی راہوں میں کانٹے بچھائے، رکاوٹیں کھڑی کیں، الحاصل اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلافت نت نئی سازشوں کے جال پھیلائے اور اہل اسلام کو اس جال میں پھانسنے کی کوشش کرتے رہے اور یہ ان کی مخالف اسلام کوششیں صدر اسلام سے لگاتار جاری و ساری ہیں، آئے دن اسلام، پیغمبر اسلام اور اہل اسلام کو رسوا کرنے اور ضرر و نقصان پہونچانے کیلئے ہر طرح کے ہت کنڈے استعمال کئے جارہے ہیں، دنیا کے سارے باطل مذاہب، سارے باطل پرست اقوام و ملل اپنے اپنے اعتقادات و اعمال تہذیب و تمدن، علاقہ و زبان مختلف ہونے اور ایک دوسرے کے قریب ترین دشمن ہونے کے باوجود اسلام اور پیغمبر اسلام ہادیٔ عالم ﷺ کی مخالفت میں سب کے سب متحد اور ایک آواز ہیں۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
لیکن ان کی تمام تر مخالفانہ جدوجہد کے باوجود اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسلام کے چراغ کو ایسا روشن و منور کردیا کہ پوری کائنات نور توحید سے روشن و منور ہوگئی، اسلام کی پاکیزہ تعلیمات نے براہ راست ہر ایک فطرت سلیمہ رکھنے والے کے دل پر دستک دی، کیا امیر کیا غریب ، کیا بادشاہ کیا فقیر، کیا کالے کیا گورے، کیا چھوٹے کیا بڑے، کسی خاندان و قبیلہ رنگ و نسل، علاقہ و زبان کی تخصیص کے بغیر اسلام نے ہر ایک کو اپنے سایۂ رحمت میں جگہ دی، اس صورت حال میں دشمنان اسلام نے اپنے آپسی اختلاف کے باوجود سر جوڑ کر اسلام کے خلاف کی جانے والی اپنی کوششوں کا بڑی گہرائی سے جائزہ لیا،
اپنی ناکامی کے اسباب و علل پر ان کے اپنے خیال کے مطابق دانشمندوں سے مشورہ وئے اور اس بات پر بڑی شدت کے ساتھ غور و خوض ہوا کہ ہم سب کی متحدہ و مشترکہ مخالف اسلام کوششوں کے باوجود آخر اسلام کی ترقی کا راز کیا ہے؟ اسلام کے اندر آخر وہ کونسی خوبی ہے جو انسانی دلوں کو مسخر کررہی ہے؟ پیغمبر اسلام (ﷺ) کی سیرت (طیبہ) میں آخر وہ کونسی کشش ہے جو انسانی دلوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور انسانی قلوب میں انقلاب برپا کررہی ہے؟ بڑے غور اور تدبر کے بعد بالآخر وہ اس نتیجہ پر پہونچے کہ اس کی بنیاد و اساس نبی آخرالزماں سیدنا محمد رسول اللہ (ﷺ) کی ذاتِ اقدس ہے، اسی ہستی نے اسلام کے آفاقی پیغام اور اس کی ابدی حقیقتوں کو اپنی پاکیزہ عملی زندگی اور پیغام رشد و ہدایت کے ذریعہ عام فرمایا ہے، ان کی مجاہدانہ دردمندانہ و مخلصانہ کوششوں کی کوئی اور مثال تاریخ پیش نہیں کرسکتی، زمین پر اللہ سبحانہ کے بنائے ہوئے بلند و بالا اور مضبوط پہاڑ جو استقامت اپنے اندر رکھتے ہیں اس سے کہیں زیادہ اسلام کے پیغام رحمت کو سارے عالم میں عام کرنے کیلئے آپ ﷺ نے استقامت دکھائی
اور اپنے اعلیٰ اخلاق و محاسن سے اپنے تو اپنے غیروں کو بھی دل جیتے، اس راز سربستہ کے منکشف ہونے کے بعد دشمنان اسلام نے یہ محسوس کیاکہ ان کے ماننے والے آپ ﷺ سے بے پناہ عقیدت و محبت رکھتے ہیں، سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں لیکن محمد رسول اﷲ ﷺ پر کوئی انگلی اُٹھاتا ہے تو وہ کسی قیمت پر برداشت نہیں کرسکتے، اس لئے یہ طے کرلیا کہ ترجیحی طور پر ہماری کوششیں پیغمبر اسلام کی عظمت و محبت کو انسانی دلوں سے نکالنے میں صرف ہوں، اس کے بغیر ہم اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہوسکتے، اس حقیقت کو پاجانے کے بعد ان کی ساری جدوجہد اس بات پر مرکوز ہوگئی کہ کسی طرح پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف موقع بموقع زہر افشانی کی جائے اور ان کی زندگی کے پاکیزہ گوشوں کو غبار آلود بتایا جائے اور ہر ایسی بات کو ان سے منسوب کیا جائے جو ان کے مقام و مرتبہ کو متاثر کرتی ہو اور انسانی سینوں سے ان کی محبت و عظمت اور عقیدت کم کرسکتی ہو، چنانچہ اُنھوں نے ایسے ایسے اتہامات و افترا أٓت باندھے کہ جس کا کوئی تصور سخت سے سخت ترین دشمن بھی نہیں کرسکتا، لیکن دشمنان اسلام نے اس ناروا طریقہ کو اختیار کیا اور اختیارکررہے ہیں،
چنانچہ صدر اسلام سے لے کر ڈنمارک میں بنائے گئے کارٹونس تک کی جانے والی تمام تر کوششیں اسی سلسلہ کی کڑی ہیں، لیکن خالق کائنات جو قادر مطلق ہے اس نے اپنے کلام بلاغت نظام میں اعلان فرمادیا کہ دشمنان اسلام کسی طرح اسلام کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھادینا چاہتے ہیں، یہاں نور سے مراد مفسرین نے قرآن مراد لیا ہے اور بعضوں نے اسلام اور محمد رسول اللہ ﷺ یا پھر وہ دلائل و براہین بھی مراد لئے ہیں جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کو سمجھنے کے لئے شاہد عدل ہیں، لیکن ان کفار و مشرکین کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ ہوتا ہو یقینا شان خداوندی اس نور کی محافظ اور کمال تک پہونچانے کی ضامن ہے۔اللہ سبحانہ تعالی نے سورہ توبہ؍۳۲ میں اور سورہ صف؍۸ میں اس کی صراحت موجود ہے۔اللہ سبحانہ کے دلائل و براہین اس پر شاہد ہیں کہ یہ غلبہ تو ہر حال میں حاصل ہے البتہ مسلمان اسلامی احکامات پر عمل پیرا رہیں گے، اور مرضیات رب کو پیش نظر رکھیں گے اللہ سبحانہ و تعالیٰ دنیا میں مسلمانوں کو سب پر غلبہ عطا فرمائیں گے۔ اللہ سبحانہ کا وعدہ ہے حزب اللہ یعنی اللہ کی جماعت جو سچے اور پکے مسلمان ہیں وہ اس زمرے میں آتے ہیں ان کے لئے تو ہمیشہ وعدہ ہے کہ وہی سربلند رہیں گے۔ اور فتح و نصرت ان کے قدم چومے گی لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اپنے اعمال و کردار اور اخلاق سے اپنا ’’حزب اللہ‘‘ ہونا ثابت کریں۔
نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
چوں کہ دین اسلام آخری دین ہے اور پیغمبر اسلام محمد رسول اﷲ ﷺ آخری نبی ہیں، اس لئے اب قیامت تک آپ ﷺ ہی کی نبوت جاری و ساری رہنے والی اور آپ ﷺ کا لایا ہوا دین ہی باقی رہنے والا ہے۔ علماء چوں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث بنائے گئے ہیں اس لئے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ ہر دور میں آپ ﷺ کے افراد اُمت ہی میں سے ایسے صاحب فضل و کمال، حامل احادیث و قرآن ، پیکر علم و عرفان باخدا بندگان خدا کو منتخب فرماتے ہیں جو پیغمبر اسلام نبی آخر الززاں سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی عظمتوں کو انسانی سینوں میں باقی و محفوظ رکھنے کی مساعی میں مصروف عمل رہتے ہیں، اور اس عظیم مقصد کیلئے وہ اپنی زندگی وقف کردیتے ہیں۔ ایسے ہی علمائے ربانیّن سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے دین کی حفاظت کا کام لیتے ہیں اور ایسی ہی علماء دراصل اپنے پیارے نبی ﷺ کے نقشہ قدم پر چل کر آپ ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ اور تابعین، اہل بیت اطہار، اولیاء و صلحاء اور ائمہ مجتہدین کے جانشن کہلانے کے مستحق بنتے ہیں۔