پکوان گیس سبسڈی اور حکومت

پکوان گیس سبسڈی اور حکومت
مرکز میں جس وقت سے نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی نے حکومت بنائی ہے اس وقت سے ایسا لگتا ہے کہ اس کی ساری توجہ پکوان گیس صارفین کو دی جانے والی سبسڈی پر ہی ہے ۔ نریندر مودی اور بی جے پی نے انتخابات سے قبل مہم کے دوران ملک کے عوام سے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار ملنے پر وہ اندرون 100 دن بیرونی بینکوں میں رکھے ہوئے لاکھوں کروڑ روپئے کے کالے دھن کو واپس لائیں گے ۔ نریندر مودی نے تو یہ بھی اعلان کردیا تھا کہ حکومت کالا دھن واپس لا کر ہر ہندوستانی کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے جمع کروائیگی ۔ ملک کے عوام نے ان کے دلخوش کن وعدوں پر اعتبار کرتے ہوئے انہیں ووٹ دیا ۔ بی جے پی نے مرکز میں حکومت بھی بنالی اس کے باوجود کالے دھن کی واپسی پر اس نے ابھی تک کوئی عملی کارروائی نہیں کی ہے اور وہ بھی سابق کی یو پی اے حکومت کی طرح ہی اس مسئلہ پر ٹال مٹول اور التوا کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ۔ اب مرکزی حکومت بارہا یہی کہتی جا رہی ہے کہ کالا دھن رکھنے والوں کی فہرست کا افشا نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس سے بین الاقوامی معاہدات کی خلاف ورزی ہوتی ہے ۔ یہی موقف جب سابقہ یو پی اے حکومت نے اختیار کیا تھا تب بی جے پی نے اس پر اس معاملہ میں عدم سنجیدگی کا الزام عائد کیا تھا ۔ اب خود بی جے پی حکومت اسی موقف پر عمل پیرا ہے ۔ کالا دھن واپس لانا اور عوام کے کھاتوں میں پیسے جمع کروانا تو الگ بات ہے اب مودی حکومت پکوان گیس پر ملنے والی چند سو روپئے کی سبسڈی کو ختم کرناچاہتی ہے اور اس کیلئے ساری توانائیاں صرف کی جا رہی ہیں۔ وزیر اعظم کی آواز میں ایک پہلے سے ٹیپ شدہ پیام عوام کو فون کرکے سنایا جا رہا ہے ۔ اب بینکوں اور کارپوریٹ گھرانوں سے خود وزیر اعظم نے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو سبسڈی والے پکوان گیس سلینڈرس کے حصول سے روکیں۔ حکومت بارہا یہ کہتی جا رہی ہے کہ وہ ایک کروڑ سے زیادہ صارفین کو پکوان گیس پر سبسڈی حاصل کرنے سے گریز کی ترغیب دینا چاہتی ہے ۔ اس کیلئے ہر ممکنہ طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم نے بھی دوسرے اہم ترین اور معاشی اہمیت کے حامل امور کو نظر انداز کرتے ہوئے پکوان گیس سبسڈی پر ہی ساری توجہ مبذول کرلی ہے اور وہ اپنے نشانہ کی تکمیل تک اسی جدوجہد میں رہیں گے ۔
یہ درست ہے کہ ہندوستان میں کروڑہا روپئے کی دولت رکھنے والے بھی سبسڈی پر پکوان گیس حاصل کرتے ہیں اور انہیں ایسا کرنے سے روکنے کی ضرورت ہے لیکن خود وزیر اعظم اور حکومت کو اس سے زیادہ دوسرے امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ بیرونی ملکوں میں لاکھوں کروڑ روپئے کالا دھن رکھا ہوا ہے جو ٹیکس چوری اور دیگر ناجائز طریقوں سے کمایا گیا ہے ۔ اس کو واپس لانے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ملک میں بڑے کارپوریٹ اور تاجر گھرانے بینکوں کو 2.60 لاکھ کروڑ روپئے تک کا قرض واجب الادا ہیں اور وہ قرض کی ادائیگی سے گریز کر رہے ہیں۔ اس قرض کی واپسی پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ کارپوریٹ گھرانوں کی جانب سے ٹیکس کی چوری اور حکومت سے مراعات کے حصول کے ذریعہ لاکھوں کروڑ روپئے کی بچت کی جاتی ہے ۔ حکومت کو ان امور پر زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے عوام کو دی جانے والی سبسڈی کو ختم کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔ اگر حکومت کارپوریٹ اور تاجروں گھرانوں کی بے قاعدگیوں کو ختم کرنے پر توجہ دیتی ہے تو یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ملک میں عام آدمی کی معاشی حالت اور اس کی روز مرہ کی زندگی پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہونگے ۔ حکومت تاہم ایسا کرنے کی بجائے پہلے ہی مہنگائی اور بیروزگاری کا شکار عام آدمی کو ہی ایک سلینڈر پر دی جانے والی چند سو روپئے کی سبسڈی کو ختم کرنے کیلئے کمربستہ نظر آتی ہے ۔
نریندر مودی حکومت ایسا لگتا ہے کہ بنیادی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹاتے ہوئے انہیں اپنے مسائل میں الجھا کر رکھنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے لاکھوں نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کرنے والے مودی نے ان کے ہاتھوں میں سوچھ بھارت کے نام پر جھاڑو تھما دی تھی ۔ کارپوریٹ گھرانوں کے کالے دھن کو واپس لانے کا وعدہ کرنے والے مودی نے ان گھرانوں کو مزید مراعات دیتے ہوئے عام آدمی کی سبسڈی ختم کرنے کی مہم شروع کررکھی ہے ۔ انہوں نے پکوان گیس سبسڈی کو ایک بڑا مسئلہ بنا کر پیش کردیا ہے اور ساری توجہ اسی پر مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ انہیں ملک کی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے دوسرے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور خاص طور پر کالا دھن واپس لاکر ملک کے عوام کو راحت پہونچانے کی ضرورت ہے ۔