پچھتاوے کا سودا…!

جنگل میں ایک مفت خورسِیَار رہتا تھا۔ مفت کا مال کھانے کے چکر میں وہ کسی سے کچھ بھی وعدہ کرلیتا تھا۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتا تھا کہ بنا سوچے سمجھے وعدہ کرنے کا کیا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ ایک بار چمپو بندر کی سالگرہ تھی۔اس نے مہمانوں کیلئے دوسری چیزوں کے علاوہ کھیر بھی بنائی تھی۔ سِیَار کوکھیر بہت پسند آئی تھی وہ جی بھر کر کھیر کھانا چاہتا تھا۔
لیکن زیادہ مہمانوں کی وجہ سے اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ سِیَار نے ادھوری خواہش پوری کرنے کیلئے ایک منصوبہ بنایا اور اس کے مطابق کام کرنے چل دیا۔ کھیر بنانے کیلئے چاول، شکر اور دودھ وغیرہ کی ضرورت تھی جبکہ سِیَار کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔ وہ پہلے سونی چڑیا کے پاس گیا۔ چڑیا اس وقت دھان سے چاول نکال رہی تھی۔ سِیَار نے اس سے کہا ۔ : بہن، مجھے تھوڑے سے چاول دے دو۔ کھیر پکانی ہے۔‘‘ کچھ سوچتے ہوئے چڑیا بولی۔ ’’ چاول تو دے دوں گی لیکن مجھے آدھی کھیر دینی ہوگی۔ منظور ہو تو بولو۔‘‘ ’’ ٹھیک ہے میں آدھی کھیر دے دوں گا۔‘‘ سِیَار نے اس کی بات کا خیرمقدم کرتے ہوئے وعدہ کرلیا۔ چڑیا نے اسے چاول دے دیئے۔ چاول کے بعد دودھ کی ضرورت تھی۔ دودھ کیلئے وہ گائے کے پاس پہنچا اور کہا: ’’ میں کھیر بنانا چاہتا ہوں ، چاول کا انتظام ہوگیا ہے۔ تم اگر تھوڑا سا دودھ دے دو تو میں کھیر بنالوں گا۔‘‘ ’’ دودھ تو میں دے دوں گی۔‘‘ گائے بولی لیکن آدھی کھیر مجھے دینی ہوگی۔‘‘ ’’ ہاں۔ ہاں مجھے منظور ہے۔‘‘ گائے نے اسے تھوڑا سا دودھ دے دیا۔ اب شکر کی ضرورت تھی۔ وہ چیونٹی رانی کے پاس گیا اور بولا ’’ چیونٹی رانی! مجھے تھوڑی سی چینی دے دو۔ میں کھیر بناؤں گا۔‘‘ ’’ چینی کے پیسے دو تو میں تمھیں چینی دے سکتی ہوں۔

‘‘ چیونٹی بولی ۔’’ لیکن پیسے تو ہیں نہیں۔ ’’ سِیَار فکر مندی سے بولا۔’’ بغیر پیسوں کے میں تمھیں چینی کیسے دے دوں؟ ‘‘ کچھ سوچ کر چیونٹی رانی بولی۔ ’’ ہاں اگر تم آدھی کھیر مجھے دینے کا وعدہ کرو تو چینی دے سکتی ہوں۔‘‘ ’’ ٹھیک ہے میں تمھیں آدھی کھیر دے دوں گا۔‘‘ سِیَار نے اس سے بھی وعدہ کرلیا۔’’ یہ لو، اب کھیر کس برتن میں بناؤں گا؟ کوئی برتن تو میرے پاس ہے ہی نہیں۔‘‘ سِیَار سوچ میں پڑ گیا۔ تبھی اسے خیال آیا کہ بھولو بھالو کے پاس کھیر بنانے والا برتن ہے۔ وہ بھاگم بھاگ بھولو کے پاس پہنچا۔ ’’ بھالو بھائی! مجھے کھیر بنانی ہے، تم کھیر بنانے والا برتن مجھے دے دو۔ جلد ہی لوٹادوں گا۔‘‘کھیر کا نام سن کر بھولو کے منھ میں پانی بھر آیا۔ ’’ آدھی کھیر دینے کا وعدہ کرو تو دے سکتا ہوں۔‘‘ بھولو نے کہا۔ ’’ ٹھیک ہے میں تمھیں بھی آدھی کھیر دے دوں گا۔‘‘ جھٹ پٹ وعدہ کرکے سِیَار نے برتن لے لیا۔ اب سِیَار کھیر بنانے لگا۔ خوشبو سے اس کے منھ میں پانی آرہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں کھیر بن کر تیار ہوگئی۔ کھیر ٹھنڈی کرکے سِیَار نے جیسے ہی کھانے کا ارادہ کیا تبھی وہاں چڑیا پہنچ گئی اور بولی۔’’ کہاں گئی میری آدھی کھیر؟ پہلے مجھے آدھی کھیر دے دو۔ پھر کھانا۔

‘‘ ’’ ہاں ۔ ہاں ۔ تم آدھی کھیر لے لو۔‘‘ یہ کہہ کس سِیَار نے چڑیا کو آدھی کھیر دے دی، چڑیا گئی تو سِیَار پھر کھانے بیٹھا تبھی وہاں گائے آگئی اور بولی۔ ’’ بنا مجھے آدھیر کھیر دیئے کھانے بیٹھ گئے؟ لاؤ مجھے آدھی کھیر دو۔‘‘ گائے کی بات سُن کر سِیَار سٹپٹایا پھر سنبھل کر بولا۔ ’’ ہاں۔ ہاں تم بھی آدھی کھیر لے لو۔‘‘ سِیَار پھر کھیر کھانے بیٹھا مگر تبھی وہاں چیونٹی رانی آگئی، اُسے دیکھ کر سِیَار کا لقمہ ہاتھ ہی میں رہ گیا۔ ’’ کیوں ، بچو ؟‘‘ چیونٹی رانی بولی۔ ’’ اتنی جلد ہی اپنی بات سے پھر گئے۔ مجھے آدھی کھیر دیئے بغیر ہی کھانے بیٹھ گئے۔ تم نے کیا سوچا کہ چیونٹی رانی کو دھوکا دے دو گے؟‘‘ مرتا کیا نہ کرتا، وعدے کے مطابق چیونٹی رانی کو بھی آدھی کھیر دینی پڑی۔ اب برتن میں تھوڑی سی کھیر بچ گئی۔ سِیَار بچی کھچی کھیر کھانے کیلئے جیسے ہی بیٹھا تبھی بھالو آدھمکا۔ ’’ کہاں گئی میری آدھی کھیر! ‘‘۔’’ کھیر بچی ہی کہاں ہے؟ ‘‘ سِیَار غمگین لہجہ میں بولا۔’’ لاؤ میرا برتن مجھے دے دو۔‘‘ یہ کہہ کر بھالو بچی کھچی کھیر سمیت برتن لے کر چل دیا۔ بے کار ہی میں نے سب کو آدھی کھیر دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اب ایسا بیوقوفی بھرا وعدہ کسی سے نہ کروں گا۔ سِیَار اب پچھتانے کے سوا اور کیا کرسکتا تھا۔؟ ‘‘