پٹھان کوٹ : تحقیقاتی ٹیم کا دورہ

پاکستان کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے پٹھان کوٹ فضائی پٹی کا دورہ کیا لیکن ہندوستان کی حکمراں سیاسی پارٹی کی محدود سوچ کی وجہ سے ٹیم کو بھی ہندوستانی فضائیہ کی اس ایئربیس میں محدود رسائی دی گئی۔ حکمراں بی جے پی نے ایک طرف پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف بعض اُمور میں اپنے نظریات کو حائل کرلیا ہے۔ پاکستان نے پٹھان کوٹ دھماکوں کی تحقیقات  کرنے میں اپنی سنجیدگی کا اظہار کیا ہے تو ہندوستانی اپوزیشن پارٹیوں نے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ کانگریس نے تحقیقاتی ٹیم کی آمد پر احتجاجی مظاہرے شروع کئے۔ سیاہ جھنڈے اٹھائے مظاہرین نے پاکستان کے خفیہ ادارے کے خلاف نعرے لگائے۔ پاکستان کی 5 رکنی تحقیقاتی ٹیم خصوصی طیارے کے ذریعہ لاہور سے نئی دہلی پہنچی تھی۔ اس پانچ رکنی ٹیم کے سربراہ پنجاب محکمہ انسداد دہشت گردی کے چیف ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس طاہر رائے ہیں۔ دیگر ارکان میں پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کے ماہرین شامل ہیں۔ اس ٹیم کو پٹھان کوٹ ایئربیس کے دورے کی اجازت تو دی گئی

لیکن اسے ہر مقام تک مکمل رسائی نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ دونوں ملکوں نے جب تعلقات کو بہتر بنانے کا عزم کرلیا ہے تو بعض معاملوں میں اب بھی احتیاط پسندی کا مظاہرہ ہورہا ہے۔ قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) کے انسپکٹر جنرل سنجیو کمار سنگھ نے پاکستان کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا خیرمقدم کرکے دہشت گرد حملہ کی جو بھی تحقیقات ہوگی اس میں تمام تفصیلات سے پاکستانی وفد کو بھی واقف کروائیں گے۔ پاکستانی وفود کو ایسے شواہد فراہم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پٹھان کوٹ کی فضائی پٹی پر حملے کا منصوبہ پاکستان میں تیار کیا گیا تھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان سے انٹلی جنس ایجنسی اور سینئر پولیس افسران پر مشتمل ایک تحقیقاتی ٹیم ہندوستان پہونچی ہے۔ اپوزیشن کو اس پر اعتراض اس لئے ہے کہ حکومت ہند کو پاکستان کی ٹیم کے دورہ ہند کی اجازت دینے کے بجائے ہندوستانی ٹیم کو دورہ پاکستان کے لئے روانہ کرکے پٹھان کوٹ حملے کے خاطیوں کی نشاندہی کرواتی لیکن مرکز کی نریندر مودی زیرقیادت حکومت نے دہشت گردی مسئلہ پر پاکستان کے ساتھ سختی کے بجائے نرمی اختیار کرلی ہے تو اس سلسلہ میں مثبت نتائج کی اُمید کی جانی چاہئے۔ پاکستان کو اس سلسلہ میں اپنی دیانتداری اور تعاون کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں پاکستان کی پولیس نے 18 فروری کو صوبہ پنجاب میں مقدمہ درج کیا تھا اور حملے میں ملوث ہونے کے شبہ میں 3 افراد کو گرفتار کرلیا تھا۔ یہ الزام ہے کہ پاکستان میں موجود عسکریت پسند تنظیم جیش محمد اس حملے میں ملوث ہے۔

پاکستان کو پولیس نے صوبہ پنجاب میں کئی مقامات پر دھاوے کرکے خاطیوں کی نشاندہی بھی کرنے کی کوشش کی تھی۔ حکومت ہند کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر پاکستانی سراغ رساں ایجنسی نے تلاشی کا کام شروع کیا تھا۔ واضح رہے کہ پٹھان کوٹ حملے کے بعد درج ہونے والا مقدمہ دوسرا مقدمہ تھا جو ہندوستان میں حملوں کے بعد درج کیا گیا تھا۔ 2008 ء میں ممبئی حملوں کی سازش تیار کرنے کے مقدمہ میں ذکی الرحمن لکھوی کی ضمانت پر رہائی کے بعد دیگر ملزمان کو محروس رکھا گیا۔ ممبئی حملوں کی تحقیقات اور خاطیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں حکومت پاکستان کی تاخیر سے ہندوستان کے اندر بے چینی پیدا ہوئی تھی۔ پٹھان کوٹ معاملہ میں پاکستان نے ہندوستان کی تمام شکایات کا جائزہ لیا ہے تو اس سلسلہ میں تحقیقات کے عمل کو مؤثر بناکر دونوں ملکوں کے مشترکہ دشمن دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے۔ پٹھان کوٹ حملے کا مقدمہ صوبہ پنجاب کے وسط شہر گوجرانوالہ میں پنجاب پولیس کے انسداد دہشت گردی محکمہ نے درج کیا ہے۔ اس کیس کی تہہ تک تحقیقات کی جاکر ہندوستان نے جو ترفصیلات اور شواہد پیش کئے ہیں اس کے مطابق کارروائی کی جانی چاہئے۔ دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے ہی انسداد دہشت گردی کارروائیوں میں کامیابی ملے گی۔ جیسا کہ وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے کہاکہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان نے پٹھان کوٹ میں دہشت گرد حملہ ہونے کو تسلیم کیا ہے۔ اب تک پاکستان یہ تردید کرتا آرہا تھا کہ ہندوستان میں انتہا پسندی اور دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث نہیں ہے لیکن پٹھان کوٹ حملہ کو تسلیم کرتے ہوئے ایک ایف آئی آر بھی درج کیا ہے۔ پاکستانی دورہ کنندہ ٹیم بھی ذمہ دار ہے کہ وہ اپنی تحقیقات کے مطابق خاطیوں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے۔