سنتا نہیں ہے کوئی مرے درد کی صدا
بے وجہ آہ آہ کئے جارہا ہوں میں
پٹرول کی قیمتیں
قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور روپئے کی قدر میں مسلسل گراوٹ نے ملک کی معاشی کیفیت کو عیاں کردیا ہے۔ ان تلخ حقائق کے باوجود مودی حکومت ملک کی معاشی صورتحال کو نمایاں اور بہتر بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔ نریندر مودی نے گذشتہ چار سال میں کئی بیرونی دورے کئے ہیں جن پر کروڑہا روپئے خرچ آیا۔ اربوں ، کھربوں کا خرچہ اور ملک کی معاشی صورتحال ابتر ، پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں اندھا دھند اضافہ کے علاوہ عالمی سطح پر روپئے کی قدر میں بدترین گراوٹ تشویشناک بات ہے۔عوام کو اس حکومت سے کافی اُمیدیں وابستہ تھیں۔ جب کسی ملک کی کرنسی گرتی ہے تو یہ حکومت کی ناکام پالیسیوں کی تصویر بھی پیش کرتی ہے۔ اگر کرنسی اس طرح گرتی رہی تو ایک دن ردی کے ڈھیر میں تبدیل ہوجائے تو ہندوستان جیسا سونے کی چِڑیا کہلانے والا ملک اپنے ہی سپوتوں کے ہاتھوں نام نہاد قوم پرستوں کے سامنے سوویت یونین کی طرح اپنے جغرافیہ سے ہی محروم ہوجائے گا۔ ’’ اچھے دن‘‘ کے نعرہ کے آڑ میں مودی حکومت نے عوام کے حق میں اتنے بُرے دن لادیئے ہیں کہ آج عوام کو ایک لیٹر پٹرول کے لئے 86.72 روپئے ادا کرنے پڑ رہے ہیں‘ اور ڈیزل کی قیمت 75.74 روپئے فی لیٹر ہوگئی ہے۔ وزیر پٹرولیم و قدرتی گیاس دھرمیندر پردھان نے پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کے لئے خارجی وجوہات بتائی ہیں اور یہ اضافہ عارضی طور پر ہورہا ہے۔ خام تیل کی پیداوار میں کمی کی وجہ سے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں ، ان پٹرولیم اشیاء اور ہندوستانی کرنسی کے ساتھ اس طرح کی چھیڑ چھاڑ میں اگر بیرونی عناصر ملوث ہیں تو پھر ہندوستانی معیشت بھی بیرونی عناصر کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔ یہ حکومت جو خود کو ملک کا چوکیدار اور سچا قوم پرست مانتی ہے اندر ہی اندر دیمک کی طرح کھوکھلا کرنا شروع کردیا ہے۔ اگر آج روپئے کی قدر ڈالر کے مقابل 71.40 روپئے ہوگئی ہے تو پھر اس سے ہندوستانی معاشرتی زندگی کو دھکہ لگے گا۔ امریکی ڈالر کے مقابل دیگر ممالک کی کرنسیوں کے گرجانے کی کئی وجوہات ہیں۔ ماضی میں عالمی معیشت میں ہونے والی تبدیلی کا راست اثر ہندوستان پر ہرگز نہیں ہوا تھا۔ عالمی سطح پر خاص کر کساد بازاری کے برسوں میں ہندوستانی معیشت اور روپئے کی قدر مستحکم تھی۔ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ کے معاشی اصلاحات نے ملک کے اندر کساد بازاری کی صورتحال پیدا ہونے نہیں دی جبکہ امریکہ کے بشمول کئی ممالک معاشی سُست روی کا شکار ہوچکے تھے۔ بینکوں سے بڑے بڑے راحت پیاکیج حاصل کرکے عالمی بڑی طاقتیں اس صورتحال سے باہر نکل آنے کی کوشش کرتی رہی تھیں مگر ان کے سامنے ہندوستان کے قدم جمے رہے۔ آج ملک کی صورتحال چار سال قبل کی کیفیت کے برعکس ہے۔ کئی ریاستی چیف منسٹروں کو اپنی ریاستوں میں پٹرولیم اشیاء کی مختلف قیمتوں کو لیکر عوامی غم و غصہ کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو نے مرکز میں بی جے پی زیر قیادت حکومت کو ہی ان قیمتوں میں اضافہ کے لئے ذمہ دار قرار دے کر شدید تنقید کی اور امکان ظاہر کیا کہ مودی حکومت کی خراب پالیسیوں کے باعث پٹرول کی قیمت فی لیٹر 100 روپئے ہوجائے گی اور ہندوستانیوں کو ایک ڈالر ادا کرکے ایک لیٹر پٹرول خریدنا پڑے گا۔ ایک طرف پٹرول کی قیمت بڑھ رہی ہے دوسری طرف روپئے کی قدر گھٹ رہی ہے، ایسے میں یہ ملک کس سمت میں جارہا ہے یہ عوام الناس کو محسوس ہورہا ہے۔ اس نازک صورتحال میں یہ ملک ترقی کی طرف گامزن کس طرح ہوگا۔ مودی حکومت نے عوام کے سامنے مسائل کا پہاڑ کھڑا کردیا ہے۔ ملک کی معیشت گرتی جارہی ہے، ملک کی معیشت کے پھیپھڑے چھلنی کردینے والی یہ حکومت اپنے سارے سیاسی مدات حاصل کرنے کیلئے من مانی طریقہ سے کام کررہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیئے کہ ایک مؤثر حکمت عملی کے ساتھ روپئے کی قدر کو کمزور ہونے سے بچانے کی کوشش کی جائے اور عالمی پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ پر اندرون ملک قابو پانے کا متبادل طریقہ اختیار کیا جائے لیکن حکومت ایسا کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اس ملک کی اقلیت کو پریشان کرنے کیلئے اپنا سارا زور صرف کرنے والی یہ حکومت نے اکثریتی طبقہ کو بھی معاشی دَلدل میں ڈھکیلنے کا کام کیا ہے۔ کوئی بھی حکمراں ضمیر کے بغیر کام کرے گا تو عوام کیلئے مسائل کا انبار کھڑا کردے گا۔