جنہیں سب بے وفا کہتے ہیں یارو
وفا کے وہ بھی نغمے گارہے ہیں
پوٹین ۔ ٹرمپ ملاقات
صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے یوروپی دورے کے موقع پر صدر روس ولادیمر پوٹین سے ایک ایسے وقت ملاقات کی جب امریکی وفاقی جیوری نے 2016 کے صدارتی انتخابات کے دوران ڈیمو کریٹک انتخابی کمپیوٹرس کو ہیک کرنے کی سازش میں 12 روسی فوجی آفیسرس کے خلاف فردِ جرم عائد کی تھی۔ صدر امریکہ کی حیثیت سے ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے ملک کی جس طرح خدمت کرنی شروع کی ہے اس پر امریکی سیاستدانوں نے اُنگلیاں اُٹھائی ہیں۔ روس کو امریکہ کا دُشمن قرار دیتے ہوئے امریکی سیاستدانوں نے صدر ٹرمپ کے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا کہ روس نے امریکہ کے خلاف جاسوسی نہیں کروائی ہے، سوشیل میڈیا پر جعلی خبریں پھیلا کر اور سائبر حملے کرواکر ڈیمو کریٹک امیدوار ہلاری کلنٹن کے خلاف امریکی رائے دہندوں کی ذہن سازی میں اہم رول ادا کیا تھا۔ اس حقیقت کے باوجود ڈونالڈ ٹرمپ نے روسی صدر سے اپنی ملاقات کو حق بجانب قرار دیا اور صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کے الزامات کو غیر اہم قرار دیا۔ اس طرح صدر امریکہ نے اپنے ہی ملک کے عہدیداروں کی تحقیقاتی رپورٹ کو کمزور کرتے ہوئے روس کی دفاع کی تو اندرون امریکہ ان کی شبیہ پر سوالیہ نشان لگانے والے امریکی سیاستدانوں نے کہا کہ آج تک کسی بھی امریکی صدر نے اپنے ہی ملک کے دُشمن کی دفاع نہیں کی تھی جبکہ ٹرمپ نے صدر روس پوٹین سے ملاقات کرتے ہوئے امریکی انٹلیجنس اداروں کی توہین کی ہے۔ صدر ٹرمپ کو یہ سمجھنا چاہیئے کہ روس‘ امریکہ کا حلیف ملک نہیں ہے بلکہ روس امریکہ کے اصل بنیادی اقدار کا دشمن ہے۔ امریکی ایوانِ نمائندگان کے سربراہ پال رائن کے علاوہ سینئر ریپبلیکن لیڈر جان میکین نے ڈونالڈ ٹرمپ کی اس حرکت کو امریکی صدر کی جانب سے شرمناک ترین کارکردگی سے تعبیر کیا۔ امریکہ کے سابق صدور نے اپنے ملک کی شان، آن بان پر کبھی حرف نہیں آنے دیا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی ہی جانب سے تقرر کردہ انٹلیجنس اداروں کی تحقیقاتی رپورٹ کو جھوٹی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق خصوصی کونسل کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ روسی جاسوسوں نے 2016 کے انتخابات میں دو طرح کی مداخلت کی جن میں ہیلاری کلنٹن کی صدارتی مہم سے وابستہ رضاکاروں اور ملازمین کے ای میل اکاؤنٹس کو ہیک کرلیا اور اس کے متن و مواد کو برسرِ عام لایا۔ اس سے امریکی عوام کے ذہنوں میں ڈیموکریٹک امیدوار ہلاری کلنٹن کے بارے میں منفی رائے قائم ہوئی اور عوام نے صدارتی انتخابات میں ہلاری کلنٹن کی کامیابی کے امکانات کو اُلٹ کر رکھ دیا۔ اس سچائی کے سامنے آنے کے بعد صدر کے طور پر ڈونالڈ ٹرمپ کو صدر روس پوٹین سے ملاقات کرنے سے گریز کرنا چاہیئے تھا، پھر ملاقات کے دوران اپنے ملک کی دفاع کرتے ہوئے پوٹین کے سامنے احتجاج درج کروانا تھا۔ لیکن ہلنسکی چوٹی کانفرنس میں دونوں سربراہوں کی اس ملاقات کو ایک المناک عمل کہنے والوں نے یہ بھی تاثر دیا کہ امریکی صدر کی یہ افسوسناک کارکردگی ذہن میں پیوست ہوکر رہ جائے گی۔ ٹرمپ کی غلطیوں کا خمیازہ امریکہ کو بھگتنا پڑے گا۔ ٹرمپ پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انہوں نے اَنا پرستی، دروغ گوئی اور آمریت پسندوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہوئے امریکہ کے وقار و اقدار کو پامال کردیا ہے۔ روس کے خلاف امریکی عہدیداروں میں پائے جانے والے غم و غصہ کو نظرانداز کرکے ٹرمپ نے امریکی جمہوریت کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ ٹرمپ کی جانب سے تقرر کردہ نیشنل انٹلیجنس کے ڈائرکٹر ڈینی کوٹس نے اپنے عہدیداروں کی تحقیقاتی رپورٹ کو واضح اور حقیقت و سچائی پر مبنی قرار دیا اور اس رپورٹ کو ٹرمپ نے ہلنسکی میں بری طرح نظرانداز کردیا۔ صدر روس کے سامنے ٹرمپ ایک بھیگی بلّی کی طرح دکھائی دے رہے تھے خاصکر اس وقت جب انہوں نے روس کو نہ صرف خوش کرنے کی کوشش کی بلکہ پوٹین کی حمایت میں کھڑے ہوکرامریکہ کو نیچے کردیا۔ امریکی لاء انفورسمنٹ کے خلاف پوٹین کی دفاع کرنے والا پہلا امریکی صدر آگے چل کر امریکیوں کیلئے کیا مشکلات کھڑی کرے گا یہ وقت ہی بتائے گا۔ایوان انٹلیجنس کمیٹی کے سینئر ڈیموکریٹک کانگریس مین آڈم اِسکاف نے ٹرمپ کی اس حرکت کو امریکہ میں مزید مداخلت کرنے پوٹین کو ہری جھنڈی دکھانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ اب ٹرمپ کو اپنے دورہ سے واپسی کے بعد اندرون ملک اس طرح کی تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے تو انہیں اپنی صفائی میں بیان دینے کی ضرورت ہے۔