برسوں سے پڑی گاڑیاں اسکراپ میں تبدیل ، ماحول کو صاف ستھرا رکھنے اسکراپ کی نکاسی ضروری
حیدرآباد ۔ 25 ۔ مارچ : شہر میں صاف صفائی کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہے ۔ سڑکوں کے کناروں ، فٹ پاتھوں وغیرہ پر جمع کچرے کی نکاسی پر خصوصی توجہ مرکوز کی جارہی ہے ۔ غرض شہر میں صفائی کا خاص خیال رکھا جارہا ہے لیکن دیکھا جائے تو دو مقامات سبزی مارکٹس اور کوڑے دانوں کے اندر اور باہر سب سے زیادہ کچرا جمع ہوتا ہے کچرے کی کثرت کے معاملہ میں اب پولیس اسٹیشن کا نمبر آتا ہے ۔ شہر کا کوئی ایسا پولیس اسٹیشن نہیں جہاں موٹر سیکلوں آٹوز اور گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد سڑتی گلتی ہوئی موجود نہ ہو یہ گاڑیاں سارقین کے قبضہ سے برآمد ہوئی ہیں یا پھر جرائم کے ارتکاب میں استعمال کرنے پر انہیں ضبط کیا گیا ہے ۔ قارئین ! آپ کسی بھی پولیس اسٹیشن کے سامنے سے گذرئیے ۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کی نظریں پولیس اسٹیشن کے باہر پڑی ہوئی زنگ آلودہ ، ناکارہ ان گاڑیوں پر پڑیں گی جنہیں پولیس اسٹیشن کی بجائے کباڑ خانے میں ہونا چاہئے ۔ پولیس اسٹیشن کے باہر موجود ضبط شدہ گاڑیاں اگرچہ ضبطگی کے موقع پر بہترین حالت میں ہوتی ہیں لیکن آہستہ آہستہ ان گاڑیوں کی حالت بد سے بدتر ہوجاتی ہے اور اس مدت میں ان گاڑیوں کی حالت ایسے ہی ہوجاتی ہے جیسے کوئی ضعیف اداکار یا اداکارہ میک اپ کے بغیر منظر عام پر آجائے ۔ میڈیا میں ایسی کئی رپورٹس شائع ہوئی ہیں جس میں مختلف ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ضبط اور سارقین کے قبضہ سے برآمد شدہ گاڑیوں کے پارٹس ( گاڑی کے اہم سازو سامان ) کو دیکھتے ہی دیکھتے غائب کردیا جاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ سامان بہت ہی سستے داموں پر ضرورت مند میکانیکوں کو فروخت کردیا جاتا ہے ۔ راقم الحروف نے شہر کے مختلف پولیس اسٹیشنوں کا جائزہ لیا اور تمام پولیس اسٹیشنوں میں یہ بات مشترک دیکھی گئی کہ وہاں پرانی گاڑیوں کا انبار پڑا ہوا ہے ۔ جن میں 2010 کے فساد میں نذر آتش کردہ گاڑیوں سے لے کر برآمد شدہ مسروقہ گاڑیوں کے علاوہ مختلف جرائم کے ارتکاب میں استعمال کردہ گاڑیاں شامل ہیں ۔ لنگر حوض پولیس اسٹیشن کے باہر ہم نے فٹ پاتھ پر زنگ آلود گاڑیوں کا ڈھیر دیکھا جب کہ مہدی پٹنم ، آصف نگر ، لنگر حوض ، حسینی علم غرض تقریبا پولیس اسٹیشنوں کے باہر ایسی ہی گاڑیاں پڑی دکھائی دیں ۔ سب سے برا حال تو گوشہ محل پولیس اسٹیڈیم کا ہے جہاں ہزاروں گاڑیاں پڑی ہوئی ہیں اور ان میں سے 90 فیصد گاڑیوں کے صرف خول پڑے ہوئے ہیں ان کا اندرونی سامان کہاں ہے اس بارے میں ماہرین ہی بتاسکتے ہیں ۔
بتایا جاتا ہے کہ کئی برسوں سے یہ گاڑیاں وہاں پڑی ہوئی ہیں ۔ اس طرح گوشہ محل پولیس اسٹیڈیم کا ایک حصہ کباڑ خانہ میں تبدیل ہوچکا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اکثر گاڑیوں کو ضبط کئے جانے کے بعد حاصل کرنے کے لیے کوئی نہیں آتا اسی طرح جرائم میں استعمال کردہ گاڑیوں کو شواہد کی حیثیت سے رکھ لیا جاتا ہے یعنی گاڑیوں کی شکل میں موجود شواہد دھوپ بارش سردی گرمی میں پڑے پڑے پگھل جاتے ہیں ۔ دوسری طرف مسروقہ گاڑیوں کو برآمد کئے جانے کے بعد قانونی طریقہ کار کی تکمیل کے لیے کافی عرصہ تک پولیس اسٹیشن میں ہی رکھا جاتا ہے ۔ اس دوران برآمد شدہ گاڑیوں کی حالت مزید خراب ہوجاتی ہے ۔ جہاں تک کئی برسوں سے پڑی گاڑیوں کا سوال ہے پولیس کو اس کا ہراج کروانا چاہئے یا پھر اسکراپ کی شکل میں اس کی فروخت عمل میں لائی جانی چاہئے ۔ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ محکمہ پولیس کو اس اسکراپ کی فروخت سے رقم حاصل ہوگی ساتھ ہی پولیس اسٹیشنوں کے باہر دھاتی کچرا یعنی گاڑیوں کی صفائی بھی ہوجائے گی ۔ اس ضمن میں متعلقہ پولیس اسٹیشن کے عہدیدار اہم رول ادا کرسکتے ہیں ۔ حال ہی میں شائع ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ضبط شدہ اور سارقین کے قبضہ سے برآمد گاڑیاں ان کے مالکین کو صحیح حالت میں نہیں مل سکتی ان گاڑیوں کے سامان ضرور غائب رہیں گے ۔ اس ضمن میں کئی افراد نے اپنے ذاتی تجربات بتائے ہیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ گوشہ محل پولیس اسٹیڈیم میں فی الوقت 3000 سے زیادہ گاڑیاں پڑی ہوئی ہیں ۔ جو بہت ہی خراب حالت میں ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ پولیس ایک خصوصی پروگرام یا اسکیم کے تحت ان گاڑیوں کا ہراج عمل میں لا کر پولیس اسٹیشنوں کے باہر جمع اس اسکراپ کو صاف کردے تاکہ پولیس اسٹیشن کے باہر کا ماحول صاف ستھرا ہوجائے ۔۔