زوال قوم کی تو ابتدا ہی تھی کہ جب
تجارت آپ نے کی ترک نوکری کرلی
پنڈت نہرو کی میراث پر سیاست
ہندوستان میں زعفرانی سیاست نے موجودہ حکمرانوں کو نظریاتی پالیسی کے فالج میں جکڑ رکھا ہے اس لئے حکمراں پارٹی کے افراد قومی قائدین کی توہین کرنے میں پس و پیش نہیں کررہے ہیں۔ دوسری جانب کانگریس نے ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی 125 ویں یوم پیدائش تقریب کے لئے وزیراعظم، بی جے پی یا این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں میں سے کسی لیڈر کو مدعو کرنے سے گریز کیا ہے جس پر لفظی جنگ چھڑ گئی۔ نائب صدر کانگریس راہول گاندھی نے اپنے نانا کی سیاسی میراث کو آگے لے جانے کے عزم کے ساتھ میدان سیاست کو اختیار کیا ہے تو انھیں بزرگوں کی سیاسی پالیسیوں کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ سیاست میں ادب و احترام کو ملحوظ رکھا جانا ضروری ہے۔ راہول گاندھی پر حکمراں پارٹی بی جے پی کے قائدین نے تنقید کی ہے کہ وہ وزیراعظم نریندر مودی کے تعلق سے منفی رائے کے ساتھ بیہودہ اظہار خیال کررہے ہیں۔ راہول گاندھی نے کہا تھا کہ نریندر مودی ایک طرف اپنی تصویر کی اشاعت کے لئے سڑکوں پر جاروب کشی کررہے ہیں دوسری طرف نفرت پھیلارہے ہیں۔ جواہر لال نہرو کی یوم پیدائش تقریب کے لئے کانگریس نے اپنی تمام حلیف پارٹیوں اور دیگر پارٹیوں کے قائدین کو مدعو کیا لیکن وزیراعظم نریندر مودی اور اے ڈی اے قائدین کو نظرانداز کردیا گیا۔ گزشتہ پانچ ماہ کے دوران مودی اور بی جے پی قائدین نے بھی قومی قائدین کی عظمت اور خدمات کو فراموش کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔ اس حکومت کی جانب سے بعض ایسے عوامل بھی سامنے آئے ہیں جس کو ان قومی قائدین کی توہین کے مترادف سمجھا گیا ہے۔ پنڈت نہرو کی یوم پیدائش تقریب خالص کانگریس کی تقریب بتائی گئی۔ اس واقعہ کو سیاسی رنگ دے کر قومی سطح پر ایک نیا محاذ چھیڑنے کی کوشش کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ قومی قائدین کی تاریخ وفات یا یوم پیدائش کے حوالے سے بھی اگر سیاسی پارٹیاں اپنی سیاست کرتے ہیں تو پھر یہ معاشرہ میں اتحاد اور بھائی چارہ کو فروغ دینے ان بزرگ قائدین کی خدمات کو فراموش کردینے کے مترادف حرکت کہلائے گی۔ نہرو کے فلسفہ اور خدمات کو تسلیم کرنے کا جہاں تک سوال ہے مودی حکومت سے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی کیوں کہ سنگھ پریوار کے نظریہ کے تحت جمہوریت میں اپوزیشن کو اہمیت نہ دینے کا چلن زور پکڑ چکا ہے۔ بعض معاملوں میں کانگریس بھی اپنی حکمرانی کے دور میں نہرو کے فلسفہ اور خدمات کو فراموش کردیا تھا جس کے نتیجہ میں آج اس کی ملک بھر میں سیاسی اہمیت گھٹ چکی ہے۔ اندرا گاندھی کے انتقال کے بعد اقتدار سنبھالنے والے راجیو گاندھی نے ہی سیکولرازم پر نہرو نظریہ کو بالائے طاق رکھ کر شاہ بانو کیس میں مسلمانوں کو ناراض کیا تھا اور ایودھیا میں بابری مسجد کا تالہ کھلواکر ہندو انتہا پسندوں کو پوجا کی اجازت دی تھی جو کانگریس اور ہندوستان کے سیکولر کردار کے لئے شدید دھکا ثابت ہوئی۔ کانگریس نے بظاہر نہرو کی جیاکٹ اور ٹوپی پہن کر ہائی کمان کلچر کو فروغ دیا اور ایمرجنسی جیسے عوامل کر گذرگئی۔ اب وہ نہرو کی یوم پیدائش کے سہارے اپنی کھوئی ہوئی سیاسی عظمت کو بحال کرنے کوشاں نظر آرہی ہے۔ کانگریس ورکرس سے عہد لیا جارہا ہے کہ وہ نہرو کے اقدار کو فروغ دیں گے جبکہ کانگریس کے بڑے قائدین نہرو کے اقدار کو پامال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ نہرو فلسفہ کے سانچے میں ڈھلنے کے لئے کوشاں کانگریس کو سیکولر ہندوستان کے اصولوں سے بغاوت کرنے کے نتیجہ میں سیاسی ناکامیوں کا شکار ہونا پڑا ہے۔ اب وہ اپنے اس سیاسی المیہ کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوئے اقدار کی سیاست کا پرچم لہرانے کی کوشش کررہی ہے۔ کانگریس کو یہ غور کرنے کا موقع مل رہا ہے کہ اس حقیقی اثاثوں کا معیار کیا ہے اور اس کا تعین کس طرح ہوگا۔ مودی حکومت نے اسے یہ سبق سکھایا ہے کہ رائے دہندوں کے جذبات کا احترام نہ کرنے والوں سے وفا شعاری نہ کرنے کے نتائج کیا ہوتے ہیں۔ اسے مودی کی طاقت کے مقابل ایک مؤثر حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔
جعلی تعلیمی سند
سیاسی طاقت حاصل کرنے والوں کے لئے ہر جرم جائز ہونے لگے تو پھر ہندوستانی سماجی، معاشرتی اور سیاسی زندگی محفوظ ہاتھوں سے نکل جائے گی۔ مودی حکومت میں فروغ انسانی وسائل کی وزارت میں اَن پڑھ یا دھوکہ دہی سے تعلیمی اسنادات رکھنے والوں کو شامل کرنے پر تنازعہ میں شدت پیدا ہونے کے ساتھ یہ واضح ہورہا ہے کہ اقتدار حاصل کرنے والی پارٹی اپنے حصہ کے طور پر کچھ بھی کرسکتی ہے۔ اگر وزیر فروغ انسانی وسائل سمرتی ایرانی کے تعلق سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے چار دن میں ہی ’’ایل یونیورسٹی امریکہ‘‘ سے ڈگری حاصل کی ہے تو ان کے جونیر وزیر کے جعلی سند حاصل کرنے میں کیا قباحت ہے۔ ملک کے تعلیمی مستقبل کو جب ان ہاتھوں کے حوالہ کیا جائے تو زعفرانی طاقتوں کے فرقہ وارانہ منصوبوں کو بروئے کار لاکر ملک کی تاریخ کو مسخ کرنے کی ہرممکنہ سازش و کوشش کی جائے گی۔ کانگریس نے اس مسئلہ کو سنجیدگی سے لیا ہے تو دیگر تمام اپوزیشن پارٹیوں کو بھی قومی تعلیمی شعبہ کے اندر ہونے والی دھاندلیوں پر نظر رکھنی چاہئے۔ آر ایس ایس آنے والی نسلوں کے ذہنوں کو منتشر کرنے تعلیمی نصاب میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوجائے تو اس غلطی کے لئے غیر بی جے پی پارٹیاں بھی ذمہ دار ہوں گی کیوں کہ ان کی خاموشی نے ہی آر ایس ایس کو اپنے منصوبوں کی تکمیل کا موقع دیا تھا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اترپردیش سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمنٹ رام شنکر کتھیریا کو اپنی کابینہ میں شامل کرکے مملکتی درجہ دیا۔ ان کے خلاف الہ آباد ہائیکورٹ میں کیس ہونے کے باوجود مودی نے یہ قدم اُٹھایا ہے تو قصداً خرابی اور جرم کو نظرانداز کرکے اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کرنے کا بدترین مظاہرہ سمجھا جارہا ہے۔ 2010 ء میں کتھیریا کے خلاف تعلیمی سند میں جعلسازی کا کیس درج کیا گیا تھا۔ ملک کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد کے اقدار پر مبنی تعلیم کو فروغ دینے کی مساعی ہی کا نتیجہ ہے کہ آج تعلیمی شعبہ میں ہندوستانی طلباء کو سربلندی حاصل ہے مگر حالیہ برسوں میں داغدار اور مجرم سیاستدانوں کی من مانی نے صاف ستھری عوامی زندگی کو مجروح کیا ہے۔ اس کا ازالہ کرنے کے لئے بے داغ سیاستدانوں کا انتخاب عوام کی ذمہ داری ہے۔