حیدرآباد۔26مارچ(سیاست نیوز) آصف جاہی حکمرانوں نے کبھی بھی چھوت چھات کے رواج کو فروغ نہیں دیا بلکہ آصف جاہی اور قطب شاہی حکمرانوں نے اچھوت سمجھے جانے والی طبقات کو مراعات اور ترقی کے مواقع فراہم کرنے کاکام کیاہے۔ سینئر ایڈوکیٹ ہائی کورٹ آندھرا پردیش وصدر ریپبلکن پارٹی آف انڈیا مسٹر بوجا تارکم نے یہ بات کہی۔ انہوں نے کہاکہ آصف جاہی دور حکمرانی کا خاتمہ اور متحدہ ریاست آندھرا پردیش میں آندھرائی حکمرانوں کے دور کا آغاز تلنگانہ میں مسلمانوں کے علاوہ دلت‘ پچھڑے اور قبائیلی طبقات کے ساتھ ناانصافیوں کی شروعات ثابت ہوا۔ انہوں نے کہاکہ اچھوت پسماندہ طبقات کو آصف جاہی حکمرانوں نے اراضیات جاری کئے تھے
جس کے ذریعہ پسماندگی کاشکار دلت‘ پچھڑے اور قبائیلی طبقات کو زراعت کا موقع فراہم کیاگیا تاکہ مذکورہ طبقات اپنی معیشت کو مستحکم کرسکیں۔انہوں نے مزید کہاکہ متحدہ ریاست قائم ہونے کے بعد آندھرائی حکمرانوں خاص طور پر ریڈی اور ویلمہ کمیونٹی نے مسلمانوں کی زمینات کے علاوہ دلت‘ پچھڑے اورقبائیلی طبقات کی زمینات کو بھی ہڑپ لیا ۔ انہوں نے وقف‘صرفخاص‘ جاگیر دارانہ نظام کے خاتمہ کے نام پر حاصل کردہ اراضیات‘ صرفخاص کی زمینات کو ذاتی مفادات کے لئے قبضہ کرنے کا بھی آندھرائی قائدین پر الزام عائد کیا جن میںریڈی اور ویلمہ خاندانوں کی اکثریت ہے ۔ انہوں نے کہاکہ 1956کے بعد مسلمانوں کو سیاسی طور پر کمزور بناتے ہوئے تلنگانہ میںمسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کردیا گیا۔
سرکاری محکموں کے علاوہ تعلیم اور تجارت کے شعبوں سے بھی مسلمانوں کے ساتھ ناانصافیا ں کی گئیں ۔ انہوں نے کہاکہ متحدہ ریاست میں جہاں آصف جاہی حکمرانوں نے مسلمانوں کو بھی سرکاری محکموں میںآبادی کے تناسب سے مواقع فراہم کئے تھے جس کو آندھرائی حکمرانوں کے دور اقتدار میں منظم سازش کے تحت ختم کردیا گیا۔ مسٹر بوجارتارکم نے ہندوستان کی 29ویں ریاست تلنگانہ میں استحصال اور ناانصافیوں کا شکار طبقات کے حالات میں سدھار کے لئے دلت‘ مسلم اتحاد کی اہم ضرورت قراردیتے ہوئے کہاکہ اعلی ذات والوں کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور کمزور طبقات کے حالات کو تبدیل کرنے میںدوبارہ رکاوٹ بنے گا۔
انہوں نے کہاکہ نئی ریاست تلنگانہ میں کمزور اور پسماندہ طبقات جن کی آبادی کے مناسبت سے 90فیصد سے زیادہ ہے جو متحد ہوجائیںتو ایک نئی سیاسی صف بندی کے ذریعہ تلنگانہ سے مکمل طور پر استحصال ‘ حق تلفی اور ناانصافیوں کا خاتمہ کیاجاسکے گا۔ انہوں نے حکومت کے ایوانوں میںپسماندہ طبقات کی نمائندگی کو مسلمانوں ‘ دلت ‘ پچھڑے اور قبائیلوں کی حالت زار میں تبدیلی کا بہترین ذریعہ قراردیا ۔انہوں نے کہاکہ نئی ریاست تلنگانہ میں مجوزہ انتخابات کے بعد برسراقتدار انے والی پہلی سیاسی جماعت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسلمانو ں اور ایس سی‘ ایس ٹی‘ بی سی طبقات کو آبادی کے تناسب سے تحفظات اور مراعات فراہم کرے جس کا تلنگانہ تحریک کے دوران وعدہ کیاگیا تھا۔ انہوں نے مسلمانوں کے بشمول پسماندگی کاشکار دیگر طبقات کے ساتھ ناانصافی کے خلاف نئی ریاست میں جدوجہد کے سلسلے کو جاری رکھنے کا بھی اس موقع پر اعلان کیا ۔