درخواست کی سماعت سے سپریم کورٹ کا انکار بدبختانہ : ایس آئی او
نئی دہلی ۔29جولائی ۔ ( سیاست ڈاٹ کام )ایک اقلیتی ادارہ ، جس نے آل انڈیا پری میڈیکل ٹسٹ ( اے آئی پی ایم ٹی ) امتحانات میں چہرہ پر نقاب یا حجاب کے استعمال پر امتناع سے متعلق سی بی ایس ای کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہوئی تھی اس کی درخواست قبول کرنے سے عدالت عظمیٰ کے انکار کی مذمت کی ہے ۔ اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن ( ایس آئی او ) کے صدر اقبال حسین نے آج کہا کہ سی بی ایس ای کے احکام سے انفرادی مذہبی آزادی پامال ہوتی ہے اور اس ضمن میں چیف جسٹس آف انڈیا کے ریمارکس بدبختانہ ہیں۔ اقبال حسین کے یہ نظریات ، ادارہ برائے مطالعات امن و ہم آہنگی کے ڈائرکٹر ایم ڈی تھامس کے نظریات سے یکسانیت رکھتے ہیں جنھوں ( تھامس ) نے کہا تھا کہ امتحانات کے دوران نقل نویسی و تلبیس شخصی روکنے کے ارادوں کے تحت یہ گشتی جاری کی گئی تھی جو منصفانہ ہے لیکن ان کی طرف سے معلنہ ضابطوں پر مناسب غور و بحث نہیں کی گئی چنانچہ بورڈ کو دستوری حقوق میں توڑجوڑ کا کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔ واضح رہے کہ 3 مئی کو پرچہ کے افشاء کی اطلاعات کے بعد سپریم کورٹ نے اے آئی پی ایم ٹی کو منسوخ کردیا تھا جس کے بعد سنٹرل بورڈ آف اسکول ایجوکیشن ( سی بی ایس ای ) نے اعلامیہ جاری کرتے ہوئے امیدواروں کو ہدایت کی تھی کہ امتحان ہال میں وہ بیلٹس ، کیاپس ، حجاب وغیرہ اپنے ساتھ نہ رکھیں۔ علاوہ ازیں امیدواروں کو یہ ہدایت بھی کی گئی تھی کہ وہ نیم آستیں شرٹس اور کھلے چپل پہنیں۔ تاہم ان احکام پر بعض اقلیتی اداروں کی ناراضگی کے پیش نظر بورڈ نے 25 جولائی کو منعقدہ ٹسٹ کیلئے ڈریس کوڈ میں معمولی ترمیم کی تھی۔
جماعت اسلامی ہند کے جنرل سکریٹری سلیم انجینئر نے کہاکہ ’’سی بی ایس ای کے ایسے سرکیولرس دراصل موثر انداز میں امتحانات کے انعقاد میں سی بی ایس ای کی ناکامی کی پردہ پوشی کے لئے جاری کئے گئے تھے ۔ بورڈ کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ملک میں صرف اے آئی ایم پی ٹی امتحانات ہی منعقد نہیں ہورہے ہیں ۔ سیول سرویسیس اور انجینئرنگ انٹرنس ٹسٹ میں ایسے قواعد نہیں ہیں تو پھر کس لئے وہ میڈیکل امتحانات میں فرقہ پرست ذہنیت کا مظاہرہ کررہے ہیں ‘‘۔ سپریم کورٹ بنچ نے حال ہی میں حجاب کے استعمال پر امتناع کے خلاف دائر کردہ ایک درخواست کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ امتحان ہال میں بغیر حجاب کے ساتھ حاضر ہونے سے کسی کا ایمان یا عقیدہ غائب نہیں ہوجاتا ۔ عدالت عظمیٰ کے اس ریمارک پر تبصرہ کرتے ہوئے انڈین مسلم لیگ کے جنرل سکریٹری اور کیرالا کے رکن پارلیمنٹ ای ٹی بشیر نے شدید ردعمل ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ مذہبی معاملات میں عدالتوں کو مداخلت یا اس قسم کے ریمارکس سے گریز کرنا چاہئے ۔