مرحوم کے سینکڑوں شاگرد اعلی عہدوں پر فائز ، میسور میں تعزیتی اجلاس ، ڈاکٹر وہاب عندلیب ، پروفیسر فہمیدہ بیگم ، ڈاکٹر حلیمہ فردوس ، پروفیسر بی شیخ علی اور دیگر کا خطاب
میسور ۔ 26 ۔ دسمبر : ( راست ) : گذشتہ روز’’بزم اقبال‘‘ میسورکے زیر اہتمام مرحوم پروفیسر محمد ہاشم علی ، مؤظف صدر شعبۂ اردو، میسور یونیورسٹی کی پہلی برسی کے موقع پر ایک تعزیتی اجلاس’’بیاد محمد ہاشم علی‘‘صبح 11-30 بجے بمقام درسگاہِ بتول میسور، محترم بی شیخ علی کی صدارت میں منعقد ہوا۔ جس کی مہمان اعزازی ڈاکٹر فہمیدہ بیگم سابق ڈائرکٹر ین سی پی یو یل تھیں اورمہانان خصوصی ڈاکٹر وہاب عندلیب ، ڈاکٹر م ن سعید، ریاض احمد ، پروفیسر سی سید خلیل احمد، ڈاکٹر حلیمہ فردوس ، ڈاکٹر جہاں آرا بیگم ، ڈاکٹر رگھوتم دیسائی اور گوہرؔ تری کیروی رہے۔ اس خصوصی تعزیتی نشست میں بہت بڑی تعداد میں شاگردان محمد ہاشم علی دور دراز مقامات سے آکر شریک رہے۔ ڈاکٹر حلیمہ فردس نے بڑے پتے کی بات یہ بتائی کہ ہاشم علی مرحوم کے شاید ہزاروں شاگرد نہ ہونگے البتہ سینکڑوں کی تعداد میںجو ان کے شاگرد رہے وہ سب بہت اونچے عہدوں پر فائز رہے۔ یہاں quantity کا معاملہ نہیں رہا البتہ quality پر توجہ دی گئی۔اس تعزیتی نشست کا آغاز ڈاکٹرسید عبدالقدوس کی تلاوت آیات ربّانی سے ہوا۔ محترمہ زہرہ خانم حمد باری تعالی اور سید احمد راحلؔ نے سرکار دو عالم ؐ کے حضور نعت شریف کا نذرانہ پیش کیا۔ کرناٹک اردو اکادمی کے سابق ممبر اور جلسہ کے کنوینر نعمت اﷲ خان نے نظامت کے فرائض انجام دئے ، ڈاکٹر حلیمہ فردوس نے خیر مقدمی کلمات ادا کیے۔ڈاکٹر وہاب عندلیب نے مرحوم ہاشم علی کی ابتدائی تعلیم و تربیت پر تفصیلاً روشنی ڈالی۔ بتایا کہ ان کی بنیادی تعلیم گلبرگہ سے شروع ہوئی تاہم درس و تدریس کے سلسلہ میں وہ کئی مقامات منتقل ہوئے جن میں شہر میسور بھی شامل ہے جہاں انہوں نے ایک طویل عرصہ میسور یونیورسٹی میں شعبۂ اردو میں خدمات انجام دیں۔ ان کی شخصیت بڑی باغ و بہار تھی وہ جس محفل میں بھی شامل ہو جاتے اس میں چار چاند لگ جاتے تھے۔ رگھوتم دیسائی نے بھی بہت جذباتی انداز میں مرحوم کو یاد کیا ۔ ان کی محبت اور شفقت اس قدر رنگ لائی تھی کہ وہ جب بھی گلبرگہ تشریف لاتے وقت نکال کر ان سے ملاقات کیے بغیر نہیں لوٹتے تھے۔پروفیسر م ن سعید نے مرحوم کی تعلیمی خدمات کو سراہتے ہوئے ہاشم علی کی اردو پروفیسر ڈاکٹر حبیب النساء بیگم کو یاد کیا جنہوں نے ریاستِ میسور کی تاریخ میں سب سے پہلا مقالہ لکھنے کی جرأت کی تھی اور ان کی شفیق نگرانی میں ہاشم علی آگے بڑھے تھے۔انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ مقالے تو بہت لکھے جاتے ہیں تاہم انہیں شائع کرانے سے گریز کرتے ہیں۔ انہوں نے کرناٹک اردو اکادمی سے خواہش ظاہر کی کہ وہ ان مقالات کو یکجا کرکے ان کو کتابی شکل میں شائع کرے۔پروفیسر بی شیخ علی نے ہاشم علی کے تعلق سے بتایا کہ مرحوم بہت نیک اخلاق ، نرم گو ، نرم طبیعت کے مالک تھے۔ انہوں نے ہاشم علی کی ایک مشہو رکہاوت کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’’اردو کی جستجو میں کئی سنگِ میل کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم ہر سنگ میل منزل نہیں ہوا کرتی‘‘ یعنی اس سے آگے اور کئی سنگ میل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی دکنی ادبیات پر گہری نظر تھی۔ گوہر ؔتری کیروی نے ایک منظوم تہنیتی نظم سنائی جس میں ان کے ادبی اور شخصی خصوصیات کو نمایاں کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالکریم تماپوری نے اپنے مقالے میں بتایا کہ مرحوم بہت ہی مذہبی اور مہذب گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ان کے کئی تربیت یافتہ شاگرد ساری دنیا میںبکھرے پڑے ہیں۔ انہوں نے ایسی کئی عظیم شاگردں کے نام لیے جو اونچے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔ ڈاکٹر جہاں آرا بیگم نے مرحوم کی خدمات کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے معمولی سے معمولی شاگروں کو بھی خاص اہمیت دیتے ہوئے انہیں تعلیمی میدان میں بڑھاوا دیا کرتے تھے۔جس کی وجہ سے بہت سے شاگرد اونچا مقام حاصل کر سکے۔انہوں نے پروفیسر ہاشم علی کی اہلیہ محترمہ کا خاص طور پر ذکر کیا جن کی پشت پناہی کی وجہ سے ہاشم علی میں ایک توانائی پیدا ہوجاتی تھی۔ریاض احمد کی خواہش پر انکے خاندان کے افراد نے ایک لاکھ روپیوں کا عطیہ دے کر ایک ٹرسٹ قائم کیاہے جس کی وجہ سے اب ہر سال مرحوم کے نام سے ایک گولڈ میڈل میسور یونیورسٹی کی جانب سے اردو میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والے کو دیا جائے گا۔انہوں نے ہاشم علی صاحب کے تعلق سے کافی جذباتی انداز میں عقیدت کا اظہار کیا۔ڈاکٹر حلیمہ فردوس نے اپنے منفرد انداز میں مرحوم پر ایک خاکہ بہت ہی دلچسپ انداز میں پیش کیا۔ پروفیسر سید خلیل احمد نے بتایا کہ مرحوم بہت حساس طبیعت کے مالک تھے۔وہ اپنے شاگروں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کیا کرتے تھے اور تعلیم میں آگے بڑھنے میں مدد کیا کرتے تھے۔ انہوں نے سر اٹھا کر جینے کا سلیقہ سکھایا۔ اعزازی مہمان ڈاکٹر فہمیدہ بیگم نے پروفیسر ہاشم علی پر گہری روشنی ڈالی اور ساتھ ہی اردو زبان کے تعلق سے بہت ہی گہری اور عمدہ باتیں بتائیں جو اردو کے طلباء اور طالبات کے لیے مشعل راہ ثابت ہو تی ہیں۔ انہوں نے اس غلط فہمی پر سے پردہ اٹھایا کہ اردو زبان شمالی ہند کی پیداوار ہے جیسا کہ مشہور ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان دکن کی پیداوار ہے جو بہمنی دور میں بیدر میں شاعری کے طور پر پنپی اور بیجاپور میں اردو نثر نگاری نے ترقی کی۔ اس موقع پر مرحوم کی دخترڈاکٹر سمیہ فردوس نے اپنے والد کے تعلق سے بہت جذباتی انداز میں ذکر کیا اور بتایا کہ وہ جب بھی باہر سے گھر آتیںتو پروفیسرصاحب صرف ایک سوال کرتے کہ آج انہوں نے کتنے آدمیوں کی مدد کی۔انہیں ہمیشہ دوسروں کی فکر لگی رہتی اور ان کی مدد پر ہمیشہ آمادہ رہتے۔ان کی شاگردہ فریدہ خانم نے بھی پروفیسر صاحب کے تعلق سے عقیدت کا اظہار کیا۔ آخر میں پروفیسر صاحب کے فرزند نے سبھی شرکاء اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ مولانامحمد نسیم نے دعائے خیر کی ۔ اس تعزیتی نشست میں شہر میسور کی کئی عمائدین، ادبی اور مِلّی شخصیتوں کے علاوہ مرحوم کے درجنوں شاگرد موجود تھے۔