پردھان سیوک

آپ کا کوئی سفر بے سمت بے منزل نہ ہو
زندگی ایسی نہ جینا جس کا مستقبل نہ ہو
پردھان سیوک
ہندوستان میں اب لفافہ بردار الیکٹرانک میڈیا کا دور ہے اس لئے یہاں یہ روایت دیکھی جارہی ہے کہ لفافہ بردار صحافیوں کوخریدکر اپنی ہر غلطی کی پردہ پوشی کی جائے ۔ منفی چہروں ، غلطیوں ، دھاندلیوں ، کمزوریوں ، کوتاہیوں کو خوبیوں میں بدل کر اس کی اتنی تشہیر کی جائے کہ لوگوں کو سچ کا یقین کی حد سے زیادہ گماں ہوجائے ۔ مرکز کی نریندر مودی زیرقیادت بی جے پی حکومت کی ایک سال کی تکمیل پر جو سروے کرائے گئے اور ان کو جس ڈھنگ سے پیش کیا گیا اس میں سراسر دروغ گوئی ، مبالغہ آرائی سے کام لیا گیاہے ۔ مودی حکومت کی کارکردگی کی 77.5 فیصد عوام نے ستائش کی ہے ۔ ان کے کاموں کو نمک مرچ لگاکر خوب لذیذ طریقہ ے پیش کیا جارہا ہے ۔ اگر ہندوستان کے کسی گوشے میں کوئی خرابی ہے تو اس کو نظرانداز کیا جارہا ہے ۔ پورا ملک ہر محاذ پر خرابیوں کا شکار ہے مگر اس پر خوشنما سفید چادر ڈال کر عوام کو اچھائی دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ صدر بی جے پی امیت شاہ کا دعویٰ ہے کہ ایک سال میں اس ملک میں کوئی کرپشن نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی بڑا اسکام سامنے آیا ہے ۔انھیں یہ معلوم ہوگا کہ ان کی ہی پارٹی کی حکومت میں سیاسی مفاہمت کے ذریعہ کتنے بڑے اسکامس کو دبادیا گیا ہے ۔ ٹاملناڈو کی چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لینے والی جیہ للیتا کو کروڑہا روپئے کے غیرمحسوب اثاثہ جات کیس میں عدالت سے رہائی ہوئی ۔ کرپشن پر کنٹرول کو دکھایا گیا ہے کہ جیہ للیتا کو کس طرح جیل سے آزادی ملی ہے اور مغربی بنگال کی چیف منسٹر ممتا بنرجی کو شاردا چٹ فنڈ سے کس طرح بچالیا گیاہے۔ ملک میں ایک سال کے اندر معاشی ترقی کا دعویٰ کرنے والے وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوستانی عوام کے نام اپنے مکتوب میں یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ ان کی حکومت میں معیشت مستحکم ہورہی ہے جبکہ تجارتی ادارے اور عوام الناس جانتے ہیں کہ شیر مارکٹ کا کیا حال ہے ۔ سنسیکس اور نیفٹی خسارہ میں چل رہے ہیں تو معیشت کہاں مضبوط ہے ؟ ڈالر کے مقابلہ میں روپئے کی قدر کمزور پڑ رہی ہے تو کیا اس کو وزیراعظم معیشت کی مضبوطی سمجھتے ہیں؟ دولت کمانے والوں کی تعداد محدود کردی گئی یعنی کارپوریٹ گھرانوں کو کھلی چھوٹ ، چھوٹی صنعتوں ، چھوٹے بیوپاریوں پر نت نئے شرائط لگاکر انھیں تنگ کردیا جانا ، معیشت کی مضبوطی متصور ہوگی ۔ اگر روپیہ ہی کمانا اصل مقصد بن جائے تو جرائم کا گراف بڑھے گا ۔ ہر شعبہ میں جرائم بڑھ رہے ہیں ، ان پر کون کنٹرول کرے گا۔ دارالحکومت دہلی میں گداگروں ، چوروں ، پاکٹ ماروں نے عام شہریوں کا جینا حرام کردیا ہے ایسی شکایات ملک کے ہر بڑے اور چھوٹے شہروں میں عام ہوتے جارہی ہے۔وزیراعظم نریندر مودی خود کو ’’پردھان سیوک‘‘ بتاکر عوام کی خدمت کرنے کا ادعا کررہے ہیں ان کا یہ مکتوب عوام الناس کو احساس دلانے کیلئے ہے کہ ان کے درمیان ایک ایسا لیڈر موجود ہے جو خود کو وزیراعظم یا پردھان منتری نہیں بلکہ پردھان سیوک مانتا ہے۔ عوام الناس نے جب کسی کو ووٹ دے کر اپنا پردھان بننے کا موقع دیا ہے تو اس کے عوض پردھان کا فرض بنتا ہے کہ وہ انھیں وعدوں کی جگہ حقیقی حوشحالی دے ۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو تحفظ ملے ، تعلیم و معاشی ترقی ملے ، سماج میں بہتر مقام ملے مگر اس کے برعکس ملک کی بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر ملازمت نہیں ملتی ، رہنے کیلئے گھر نہیں دیا جاتا ۔ جائیداد کی خریداری کیلئے پابندیاں عائد کی جاتی ہیں تو ایسے میں اچھے دن اور پردھان سیوک کے مقاصد پورے کیسے ہوں گے ۔ جمہوریت اور سیکولرازم کے ساتھ ان کی کمٹمنٹ مجہول دکھائی دیتی ہے ۔ فرد واحد کی حکومت کو عوام پر مسلط کرنے کی کوشش کا مطلب آمریت کو پروان چڑھانا ہے ۔ وزیراعظم نے اپنے بیرونی دوروں میں ہندوستان کی جتنی برائی کرنی تھی کرلی بلکہ ہندوستانی عوام کے تعلق سے یہ بھی کہا کہ عوام کو اب تک ہندوستان میں پیدا ہونے پر شرم محسوس ہورہی ہے ۔ مگر گزشتہ ایک سال سے ان کا سر فخر سے بلند ہورہا ہے ۔ وزیراعظم نے میک ان انڈیا پالیسی کا ہوا کھڑا کرکے کچھ حاصل نہیں کیا ۔ اگر لوگوں کو اچھے دن نہیں دے سکتے تو نہ سہی مگر ان کو بدنامی کے دن بھی نہ دکھائے جائیں ۔عالمی سطح پر ہندوستان کے وقار کو بڑھانے کا دعویٰ کرنے کے ساتھ اس کی خرابیوں کے حوالے سے بدنام کرنے کا عمل روک دیا جائے تو عوام کے لئے محسن کام ہوگا ۔ ہندوستان کا بنیادی مسئلہ اجتماعی وقار سے مربوط ہے لیکن مودی حکومت میں ہندوستانیوں میں مذہب کی بنیاد پر امتیاز برتا جانے کے عمل میں اضافہ ہوجائے تو پھر قومی تشخص کی بگڑتی کیفیت سب کیلئے تکلیف دہ ہوگی ۔ سماجی ڈھانچے کو فرقہ وارانہ منافرت سے اتنا زہرآلود نہ بنایا جائے جہاں رہنا اور سانس لینا باعث ذلت بن جائے۔