پراپرٹی ٹیکس کی وصولی میں بلدیہ کی مستعدی پر عدالت اور سیاسی جماعتوں میں برہمی

عوام میں تشویش کی لہر ، اثاثہ جات کی ضبطی کا سلسلہ جاری ، بلدیہ شہر میں صاف ستھرا ماحول فراہم کرنے میں ناکام
حیدرآباد ۔ 27 ۔ مارچ : ( سیاست نیوز ) : بلدیہ کی جانب سے پراپرٹی ٹیکس کی وصولی میں دکھائی جانے والی مستعدی اور حیرت انگیز کارروائیوں پر نہ صرف عوام بلکہ عدالت اور سیاسی جماعتوں میں بھی برہمی کی لہر پائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود بلدی عہدیدار اپنی من مانی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ حتی کہ عدالتوں کی جانب سے سخت ریمارکس کے باوجود بھی شہر میں پراپرٹی ٹیکس کے لیے اثاثوں کی ضبطی وغیرہ کے واقعات رونما ہورہے ہیں ۔ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کی ذمہ داری صرف پراپرٹی ٹیکس وصول کرنا نہیں ہے بلکہ شہریوں کو صاف ستھرا ماحول فراہم کرنے کے علاوہ انہیں بنیادی سہولتوں کی فراہمی بھی بلدیہ کی ذمہ داری ہے لیکن ان ذمہ داریوں سے فرار بلدی عہدیدار پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کے نام پر عوام کو ہراساں کررہے ہیں ۔ حیدرآباد ہائی کورٹ نے جی ایچ ایم سی کمشنر سومیش کمار کے رویہ کو طرز شاہی قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کی لیکن اس کے باوجود شہر میں پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کے معاملہ میں کوئی نرمی نہیں برتی جارہی ہے ۔ گذشتہ ماہ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کی جانب سے سوماجی گوڑہ ، پنجہ گٹہ علاقہ میں پراپرٹی ٹیکس کی عدم ادائیگی پر بلدی عملہ نے گھر کے سامنے کچہرے دان رکھ دیا تھا اور اس واقعہ کا بھی عدالت نے سخت نوٹ لیتے ہوئے بلدیہ کو اس طرح کی حرکتوں سے باز رہنے کی ہدایت دی تھی اس کے بعد بلدی عہدیداروں نے اثاثوں کی قرقی کے ذریعہ پراپرٹی ٹیکس وصول کرنے کا سلسلہ شروع کیا اور اب تو پرانے شہر کے تجارتی علاقوں میں بلدی عہدیدار پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کے لیے نوٹسیں لیے گھوم رہے ہیں اور تاجرین کو دھمکی دی جارہی ہے کہ پراپرٹی ٹیکس کے عدم ادائیگی کی صورت میں دکانیں مہر بند کردی جائیں گی ۔ بتایا جاتا ہے کہ عہدیدار اس بات کی بھی وضاحت نہیں کررہے ہیں کہ پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی مالک جائیداد کی ہے یا پھر کرایہ دار کو پراپرٹی ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے ؟ کئی مقامات پر مالک جائیداد جو کہ اپنی دکانیں و ملگیات کرایہ پر دئیے ہوئے ہیں پراپرٹی ٹیکس کے لیے کرایہ دار کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں اور بلدی عہدیدار کی جانب سے ملگیات کو مہر بند کرنے کی صورت میں اس کے راست نقصانات کرایہ دار کو بھگتنے پڑتے ہیں ۔ بلدی عہدیدار اگر سنجیدگی کے ساتھ دونوں شہروں میں بڑے ٹیکس نادہندگان کو نشانہ بناتے ہوئے صرف ان سے ان کی جائیدادوں کے مطابق حقیقی رقم وصول کرلیں تو عوام کو مشکلات نہیں ہوں گی ۔ مسٹر سومیش کمار کو پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کے علاوہ بلدیہ کی دیگر ذمہ داریوں پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہئے چونکہ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد میں منتخبہ عوامی نمائندوں کی عدم موجودگی کے سبب عوام کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے علاوہ ازیں بلدی دفاتر افسر شاہی کے مراکز میں تبدیل ہوتے جارہے ہیں چونکہ کمشنر کے طریقہ کار کو ماتحتین بھی اپنا طریقہ بنانے لگے ہیں جس سے عوام میں زبردست برہمی پائی جاتی ہے ۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد کے کئی علاقوں میں جاری تعمیری و ترقیاتی کاموں کے علاوہ معلنہ کاموں میں کس حد تک ترقی ہوئی ہے یا ان کاموں کا موقف کیا ہے یہ بتانے سے بلدی عہدیدار قاصر ہیں لیکن ہر دو دن میں بلدی عہدیدار یہ ضرور بتا رہے ہیں کہ پراپرٹی ٹیکس کی وصولی کی مہم کن علاقوں میں چلائی گئی اور کس علاقے سے بلدیہ کو بطور پراپرٹی ٹیکس کتنی رقم حاصل ہوئی ہے ۔۔