پرانے شہر کی ترقی کا منصوبہ صرف کاغذی کارروائیوں کی حد تک محدود
پیدل راہرو پراجکٹ التواء کا شکار، پارکنگ کامپلکس سے دستبرداری، ترقی کے دعوے کھوکھلے
حیدرآباد 24 نومبر (سیاست نیوز) پرانے شہر کی ترقی کا منصوبہ اور اعلانات صرف کاغذی کارروائیوں کی حد تک یا پھر اخباری تشہیر تک محدود ہوتے ہیں جس کی کئی ایک مثالیں موجود ہیں۔ پرانے شہر بالخصوص چارمینار کے اطراف و اکناف مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد نے عظیم الشان پیمانہ پر پیدل راہرو پراجکٹ کا منصوبہ تیار کیا تھا اور اِس سلسلہ میں عملی اقدامات کا آغاز بھی کیا جاچکا تھا لیکن پراجکٹ جوں کا توں برقرار ہے اور کوئی ترقیاتی اقدامات نہیں ہورہے ہیں۔ اِسی طرح خلوت کے علاقہ میں قدیم خزانہ عامرہ کی جائیداد پر مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد نے ہمہ منزلہ پارکنگ کامپلکس کی تعمیر کا اعلان کیا تھا لیکن باوثوق ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے بموجب اِس منصوبہ سے بالکلیہ طور پر دستبرداری اختیار کرلی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد نے بے جا مداخلتوں کے باعث چارمینار پیدل راہرو پراجکٹ سے بھی دستبرداری اختیار کرنے کا ارادہ کیا ہے اور پراجکٹ کے متعلق مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے عہدیدار ایچ ایم ڈی اے کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں جبکہ حیدرآباد میٹرو پولیٹن ڈیولپمنٹ اتھاریٹی کا کہنا ہے کہ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے علاوہ محکمہ پولیس کے تعاون کے بغیر یہ کام مکمل نہیں ہوسکتا۔ اِسی طرح یہ دونوں پراجکٹ تعطل کا شکار بنے ہوئے ہیں۔ خلوت میں ہمہ منزلہ پارکنگ کامپلکس کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ ابتداء میں اِس کامپلکس کی تعمیر و تکمیل کے لئے جو بجٹ مختص کیا گیا تھا اُس میں اضافہ کے باعث یہ کام کسی اور ایجنسی کے تفویض کیا گیا لیکن اُس ایجنسی کو درکار اجازت نامے حاصل نہ ہونے کے باعث اُس ایجنسی نے بھی کام کے آغاز اور تکمیل کے لئے مختص کردہ بجٹ کو ناکافی قرار دیتے ہوئے اِس میں اضافہ کی خواہش کی۔ کامپلکس کی تعمیر کے آغاز سے قبل ہی دو مرتبہ کامپلکس کے بجٹ میں اضافہ کی درخواستیں موصول ہوئیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کام میں تاخیر کے باعث صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔ بتایا جاتا ہے کہ ابتداء میں تعمیری کاموں کے لئے جو بجٹ مختص کیا گیا تھا اُس میں اضافہ کرتے ہوئے اُسے 30 کروڑ کا پراجکٹ بنایا گیا بعدازاں کسی اور کمپنی نے یہ پراجکٹ حاصل کیا اور اِس کے لئے 70 کروڑ کا بجٹ مختص کرنے کی سفارش کی جس پر مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد نے یہ تجاویز حکومت کو روانہ کیں۔ حکومت کے ذرائع کے بموجب محکمہ بلدی نظم و نسق نے اِس پراجکٹ پر مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پراجکٹ کی تیاری کے اُصول و ضوابط پر عمل پیرا نہ ہونے اور صحیح طریقہ سے کام کا آغاز نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے پراجکٹ کی تنسیخ کے سلسلہ میں مکتوب روانہ کردیا ہے لیکن مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے عہدیدار راست طور پر اِس بات کو قبول کرنے سے انکار کررہے ہیں مگر بالواسطہ اِس بات کی توثیق بھی کررہے ہیں کہ خلوت میں جو ہمہ منزلہ پارکنگ کامپلکس کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا اُس سے دستبرداری اختیار کرلی گئی ہے۔ چارمینار پیدل راہرو پراجکٹ کے سلسلہ میں بھی اِسی طرح کی کارکردگی اور غیراطمینان بخش تعمیراتی کاموں کے علاوہ بے جا مداخلتوں کے سبب پراجکٹ جوں کا توں ہے۔ پیدل راہرو پراجکٹ کے سلسلہ میں چارمینار تا مدینہ بلڈنگ ایک جانب فلورنگ کا کام مکمل کرتے ہوئے سڑک کو خوبصورت بنانے کے اقدامات کئے گئے تھے لیکن جو تعمیراتی کام مکمل ہوئے اب اُنھیں شہریوں کی جانب سے ہی نقصان پہنچایا جانے لگا ہے جس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اِسی طرح کچھ وقت کے لئے گلزار حوض سے ٹریفک کا رُخ تبدیل کرتے ہوئے تجربہ کرنے کی کوشش کی گئی مگر وہ بھی ناکام ثابت ہوا۔ حالیہ دنوں میں سردار محل تا چارمینار کی سڑک پر فلورنگ کا کام مکمل کیا گیا مگر اِس کام کے متعلق بھی کوئی عہدیدار قطعی طور پر یہ کہنے کے لئے تیار نہیں ہے کہ اِس کام کا سلسلہ پیدل راہرو پراجکٹ سے جڑتا ہے۔ چونکہ کئی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ خلوت کے ہمہ منزلہ کامپلکس کی طرح ہی چارمینار پیدل راہرو پراجکٹ سے بھی بالواسطہ طور پر دستبرداری اختیار کرلی گئی ہے۔ محکمہ انجینئرنگ کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ پراجکٹ میں جتنی تاخیر ہوگی پراجکٹ کی مالیت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا جائے گا اِسی لئے کسی بھی پراجکٹ کو معینہ مدت میں تکمیل کروانے کی شرط رکھی جاتی ہے لیکن پرانے شہر کے کسی بھی ترقیاتی پراجکٹ کے متعلق یہ بات دعوے کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ اِس پراجکٹ کی تکمیل معینہ مدت میں ہی کرلی گئی ہے۔ معینہ مدت میں پراجکٹ کی عدم تکمیل نہ صرف حکومت پر مالیہ کے بوجھ میں اضافہ کرتی ہے بلکہ عوام کی توقعات پر پانی پھیرنے کے علاوہ عوام کو مشکلات میں مبتلا کرنے کے مترادف بھی ثابت ہوتی ہے۔ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ پراجکٹ کی عدم تکمیل کی صورت میں پراجکٹ حاصل کرنے والی کمپنی کے خلاف کارروائی کی بھی گنجائش ہے لیکن دونوں پراجکٹس کے معاملات میں اِس طرح کی کوئی کارروائی نہیں کی جارہی ہے جس کا مطلب یہ واضح ہے کہ خود حکومت نہیں چاہتی کہ پراجکٹ پائے تکمیل کو پہونچے۔