پرانے شہر کی بے نامی جائیدادوں اور فرضی کمپنیوں پر شکنجہ

محکمہ انکم ٹیکس کی کارروائی سے بچنے مختلف حربے‘ تعمیراتی کاموں میں سست روی‘ سرمایہ کاروں اور بلڈرس کو سیاسی سرپرستی کا عوام کو احساس

 

حیدرآباد۔29اکٹوبر(سیاست نیوز) شہر میں ہونے والے انکم ٹیکس دھاؤوں کے بعد شہر کی جائیدادوں پر جاری تعمیراتی کاموں میں سست روی ریکارڈ کی جا رہی ہے اور کئی کمرشیل کامپلکس اور رہائشی کامپلکس جن کے تعمیری کام تیزی سے جاری تھے وہ مفقود ہوچکے ہیں۔ بتایاجاتاہے کہ انکم ٹیکس کی کاروائی نے شہر میں نقد کرنسی کے چلن میں رکاوٹ پیدا کی ہے اور انکم ٹیکس عہدیداروں کی پرانے شہر میں کی جانے والی کاروائی کے دوران جائیدادوں پر نگاہیں مرکوز کئے جانے کے بعد پرانے شہر کی ان جائیدادوںکو جلد از جلد فروخت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جن کا تعلق راست یا بالوسطہ طور پر انکم ٹیکس کی گرفت میں آنے والوں سے ہے ۔ بتایا جاتاہے کہ پرانے شہر میں موجود بے نامی جائیدادوں کے ریکارڈ س کی جانچ کے سلسلہ میں محکمہ کی جانب سے شروع کی جانے والی کاروائی سے بچنے کیلئے کئی حلقوںمیں جائیدادوں کی منتقلی کے اقدامات کئے جا رہے ہیں

کیونکہ اب جبکہ شہر کے اس خطہ پر محکمہ انکم ٹیکس کی نگاہیں مرکوز ہو چکی ہیں تو اب ہر شخص چوکسی اختیار کرنے لگا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ شہر کے اس خطہ میں بڑے پیمانے پر کسی بھی وقت کاروائی ممکن ہو سکتی ہے ۔ ذرائع کے مطابق پرانے شہر کے رہائشی علاقوں سے چلائی جانے والی فرضی کمپنیو ںکے متعلق بھی محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے جانچ کے عمل کی شروعات ہوچکی ہے اور بہت جلد اس علاقہ میں چلائی جانے والی فرضی کمپنیو ںکو بھی نشانہ بنائے جانے کا امکان ہے۔ حیدرآباد کے پرانے شہر کے علاقو ںمیں کروڑوں روپئے کی جائیدادیں رکھنے والوں کے متعلق اب تک محکمہ انکم ٹیکس نے کوئی کاروائی نہیں کی تھی کیونکہ اس علاقہ میں غربت زیادہ ہونے کے سبب کوئی توجہ مرکوز نہیں کی جاتی تھی اسی لئے اس علاقہ کو بے نامی تجارت کے ذریعہ کروڑوں روپئے کی دولت اکٹھا کرنے والوں نے محفوظ قلعہ تصور کرنا شروع کردیا تھا اور ان کی تیز رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے معصوم عوام بھی رئیل اسٹیٹ شعبہ سے بغیر کسی کمپنی کے قیام کے وابستہ ہونے لگے تھے اس کے علاوہ شہر کے تجارتی اداروں کے مالکین جو اس علاقہ میں رہتے ہیں انہیں بھی یہ احساس ہوچلا تھا کہ شہر کا یہ خطہ فرضی کمپنیوں کے قیام کے لئے محفوظ ہے ۔ بتایاجاتاہے کہ اکثریتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ایک مخصوص سرمایہ کار تجارتی طبقہ نے بھی اس علاقہ میں اپنی فرضی کمپنیاں ایسے لوگوںکے ذریعہ شروع کر رکھی ہیں جنہیں سیاسی سرپرستی حاصل ہے اور پرانے شہر میں تعمیراتی سرگرمیوں اور رئیل اسٹیٹ شعبہ میں اس طبقہ نے بھی بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے ۔ باوثوق ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پرانے شہر کے علاقوں میں قائم کی گئی فرضی کمپنیو ںکو چلانے کیلئے ایسے افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے جنہیں سیاسی سرپرستی حاصل ہوتی ہے

اور ان کے فرضی اداروں میں سرمایہ کاری کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہوا کرتی ہے کہ اس علاقہ میں سیاسی سرپرستی کے سبب غیر مجاز تعمیرات ممکن بنائے جاتے ہیں اوربغیر اجازت اور قوانین کے بنائے جانے والے پراجکٹس میں سرمایہ کاروں کو بھاری آمدنی حاصل ہو تی ہے کیونکہ پرانے شہر میں اکثر جائیدادوں کی خریدی کے دوران جائیداد کے تعمیری اجازت ناموں یا ان کی قانونی حیثیت کا خریدار جائزہ نہیں لیتے جس کے سبب تعمیری سرگرمیاں انجام دینے والی کمپنیوں کو بھاری منافع ہوتا ہے جو کہ فرضی کمپنیو ںکے ذریعہ ان اکثریتی طبقہ کے سرمایہ کاروں کو بطور منافع دیا جاتاہے جو ان پراجکٹس میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ انکم ٹیکس دھاوے اور اس کے چرچہ کے بعد عوام میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ شہر کے اس خطہ میں سرمایہ کاروں کی بنیادی دلچسپی اضافی آمدنی حاصل کرنے کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور ان کی اس اضافی آمدنی کا فائدہ سیاسی سرپرستی کے حامل بلڈرس کے علاوہ ان لوگوں کو بھی ہوتا ہے جو ان تعمیرات کو محفوظ رکھنے میںمددکرتے ہیں جو غیر مجاز ہوتی ہیں لیکن اس پورے کے عمل کے دوران اگر کسی کا نقصان ہوتا ہے تو وہ معصوم خریدار ہوتے ہیں جو بغیر اجاز ت کے تعمیر کی گئی عمارتوںمیں عدم معلومات یا کم معلومات کی بناء پر جائیداد خرید لیتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق محکمہ انکم ٹیکس کی جانب سے پرانے شہر کے علاقو ں میں مکمل تعمیر کے بعد بھی مخلوعہ عمارتوں کا ریکارڈ بھی اکٹھا کیا جارہا ہے تاکہ ان کے مالکین کا پتہ چلایا جاسکے کیونکہ تعمیر مکمل ہونے کے باوجود مخلوعہ عمارتوں کو شک کے دائرہ میں رکھتے ہوئے سمجھا جا رہا ہے کہ یہ بے نامی جائیدادیں ہیں جو مکمل ہونے کے بعد کسی کے نام پر ہیں لیکن اس کے مکین ان عمارتو ں میں رہائش پذیر نہیں ہیں۔