پرانے شہر میں کانگریس کی طاقت کا مظاہرہ ،مجلس کے گڑھ میں دراڑ

15وارڈز میں کانٹے کی ٹکر، بارکس میں مقامی جماعت کے دفاتر بند،عوام خوف کے ماحول سے باہر
حیدرآباد۔/26جنوری، ( سیاست نیوز) کانگریس پارٹی نے گریٹر حیدرآباد کی انتخابی مہم میں مجلس کے گڑھ سمجھے جانے والے حلقوں میں اپنی گرفت مستحکم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے جس سے پریشان مجلسی قیادت نے کانگریس اور ان کے قائدین کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے۔ گزشتہ تقریباً 30 برسوں سے شہر کی سیاست میں یہ روایت رہی کہ برسر اقتدار جماعت نے پرانے شہر کے علاقوں پر توجہ نہیں دی کیونکہ مقامی جماعت سے اس کی مفاہمت ہوتی رہی ہے۔ اقتدار میں چاہے کوئی پارٹی ہو اس نے پرانے شہر کے علاقوں پر سمجھوتہ کرتے ہوئے دیگر علاقوں میں مقامی جماعت کے داخلے اور ووٹوں کی تقسیم کو روکنے میں کامیابی حاصل کی، اسی تسلسل کے تحت کانگریس پارٹی بھی پرانے شہر کے ان علاقوں کو بھی نظرانداز کرتی رہی جو سابق میں کانگریس کے گڑھ رہے ہیں۔ گریٹر حیدرآباد بلدی انتخابات میں پہلی مرتبہ کانگریس پارٹی نے پرانے شہر میں مجلس کو چیلنج دیا ہے اور مقامی جماعت کے گڑھ میں دراڑ پیدا کردی ہے۔ پرانے شہر میں کانگریس کے پوری شدت اور طاقت کے ساتھ مقابلہ نے ایک طرف سیاسی ماحول کو گرما دیا ہے تو دوسری طرف مقامی جماعت کی قیادت کو پریشانی میں مبتلاء کردیا۔ کانگریس نے اپنے پارٹی یونٹس کو پرانے شہر میں متحرک کردیا اور مجلس سے ناراض قائدین کو انتخابی میدان میں اُتار کر مقابلہ کو دلچسپ بنادیا ہے۔ صدر پردیش کانگریس اتم کمار ریڈی اور قانون ساز کونسل میں قائد اپوزیشن محمد علی شبیر نے پرانے شہر میں پارٹی کی انتخابی مہم کی کمان سنبھال لی ہے۔ ان قائدین کے پرانے شہر میں مسلسل دورے اور انتخابی مہم میں حصہ لینے سے مجلس کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوچکا ہے کیونکہ عام طور پر کسی بھی جماعت نے سابق میں پرانے شہر پر کبھی بھی توجہ نہیں دی تھی۔ کانگریس جو مقامی جماعت کی روایتی حلیف رہی ہے آج کٹر حریف کی حیثیت سے میدان میں ہے اور اسے عوام کی غیر معمولی تائید حاصل ہورہی ہے۔ پرانے شہر کے تحت آنے والے38 بلدی حلقوں میں 20 پر کانگریس پوری طاقت کے ساتھ مقابلہ کررہی ہے اور 10تا15حلقوں پر کانگریسی امیدواروں کی مجلس سے کانٹے کی ٹکر ہے۔ جن بلدی حلقہ جات میں کانگریسی امیدواروں کا موقف مستحکم ہے ان میں بارکس، چندرائن گٹہ، چنچلم، دودھ باؤلی، شاہ علی بنڈہ، پرانا پل، گھانسی بازار، دبیر پورہ، گولی پورہ، آئی ایس سدن اور سنتوش نگر شامل ہیں۔ کانگریسی قیادت کو امید ہے کہ پہلی مرتبہ پرانے شہر میں کانگریس کا بہتر مظاہرہ رہے گا اور وہ مجلس کے متبادل کے طور پر اُبھر سکتی ہے۔ اتم کمار ریڈی اور محمد علی شبیر کے پرانے شہر میں انتخابی مہم کے موقع پر عوام میں غیر معمولی جوش و خروش دیکھا گیا اور رائے دہندوں کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں نے پرانے شہر کو مقامی جماعت کی مہربانی پر چھوڑ دیا تھا جس کے سبب ان کے مسائل میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتا گیا۔ اگر قومی اور علاقائی جماعتیں پرانے شہر کے رائے دہندوں پر توجہ مرکوز کریں تو  پرانے شہر کی پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہے۔ بارکس، چندرائن گٹہ، حافظ بابا نگر، اپو گوڑہ، چارمینار، خلوت، قاضی پورہ، گھانسی بازار، پرانا پل، دودھ باؤلی، حسینی علم جیسے علاقوں میں کانگریس قائدین کا جس انداز میں استقبال کیا گیا انہیں اس کی توقع نہیں تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ بارکس میں محمد علی شبیر کے دورہ کے موقع پر مقامی جماعت کے تین دفاتر کو عوام نے رضاکارانہ طور پر بند کرتے ہوئے وہاں کانگریس کے دفتر قائم کردیئے۔ بارکس کے مقامی افراد نے بتایا کہ سابق میں اس علاقہ سے کانگریس کے کارپوریٹرس منتخب ہوچکے ہیں اور بارکس کانگریس کا مضبوط گڑھ تھا۔ پرانے شہر کے عوام میںمقامی جماعت کے تئیں جو ڈر و خوف کا ماحول تھا اب وہ ختم ہونے لگا ہے۔ اسی دوران محمد علی شبیر نے مجلسی قیادت کی جانب سے کانگریس پر الزامات کو بوکھلاہٹ کا نتیجہ قرار دیا اور کہا کہ پرانے شہر میں مجلس کا استحکام دراصل کانگریس کی دین ہے اگر کانگریس نہیں چاہتی تو مجلس صرف ایک تا دو اسمبلی حلقوں تک محدود ہوکر رہتی۔ انہوں نے کہا کہ عوام خوف کے ماحول سے باہر نکل رہے ہیں اور آئندہ چند برسوں میں کانگریس پارٹی پرانے شہر میں متبادل کے طور پر اُبھرے گی۔ انہوں نے کہا کہ مجلس بلدیہ میں 3 برس تک میئر کے عہدہ پر مجلس کی برقراری دراصل کانگریس کی مہربانی تھی لیکن آج وہی پارٹی احسانات بھول کر کانگریس پر الزام تراشی کررہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دھمکیوں کے ذریعہ کانگریس قائدین کو پرانے شہر میں عوام سے قریب ہونے سے روکا نہیں جاسکتا۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ وہ کسی بھی دھمکی سے خوفزدہ ہونے والے نہیں ہیں کیونکہ عوام کانگریس کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس ایک قومی جماعت ہے اور مجلس کی سیاسی سفر میں کانگریس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں تھی لیکن افسوس کہ موجودہ قیادت نے کانگریس کے احسانات کو فراموش کردیا۔