پتھرکے زمانے سے لیکرلوہے کے زمانے تک کے’ اوزار‘

بچو! آج سے کئی ہزار سال پہلے چقماق کے پتھر سے کلہاڑے ، چھینیاں ، ہتھوڑے اور آرے بنائے گئے لیکن یہ بہت بھدے اور بدنما تھے ۔ جس زمانے میں اس طرح انسان رہتا تھا اسے پتھر کا زمانہ کہتے ہیں۔ پتھر کا زمانہ ختم ہوا تو دھات کا زمانہ شروع ہوا۔ اس دور میں انسان نے کانسی کے اوزار بنائے جو پتھر کے اوزاروں سے کہیں زیادہ نفیس تھے ۔ اُس زمانے میں مصر ، کریٹ اور یونان کے لوگ قطب نما ریتی آری کلہاڑی اور برے وغیرہ کا استعمال کرتے تھے ۔
اور ان سے کشتیاں اور فرنیچر بناتے تھے ۔ آخر میں لوہے کا زمانہ آیا ۔اس زمانے کے ہتھیار زیادہ اچھے اور مکمل تھے ۔ ان میں سے کئی ہتھیار معمولی سی اصلاح کے ساتھ آج بھی استعمال ہوتے ہیں ۔ جب روم کے لوگوں نے اوزاروں کو تیز کرنے کیلئے سان کا استعمال شروع کیا تو لوہے کے اوزار اور بہتر ہوگئے ۔ بابل ، شام ، مصر ، و ہندوستان اور چین کے قدیم لوگ معماری اور مصوری کے فن میں یکتا تھے ۔ اگر آج سے ہزارہا سال پہلے کی بنائی ہوئی عمارتوں کو دیکھا جائے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے ۔ دیوار چین اور ابرام مصر دنیا کی قدیم ترین کاریگری کا بہترین نمونہ ہیں ۔ان کو دیکھ کر ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ اس زمانے کے اوزار کتنے اعلی ہوں گے ۔ایران اور عرب نے اوزاروں کے بجائے ہتھیاروں میں بڑی ترقی کی ۔

اقوال زرین

٭ علم کا کمال یہ ہے کہ پڑھتے پڑھتے اس مقام پر پہنچ جاؤ کہ بالآخر تمہیں یہ کہنا پڑے کہ ہم کچھ بھی نہیں جانتے۔
٭ جو شخص خدا کی عبادت ذاتی اغراض کے لئے کرتا ہے، وہ اپنی پرستش کرتا ہے، خدا کی نہیں۔
٭سچا دوست وہی ہوتا ہے جو تمہارے عیبوں پر نظر رکھے اور تمہیں بروقت آگاہ کرے۔
٭ علم بہت سے ہیں اور کوئی انسان بیک وقت سب علوم نہیں سیکھ سکتا اور نہ ہی تمام علوم سیکھنا انسان پر فرض ہیں۔
٭ انسان کے پاس عقل اور علم بھی کسی چیز کو جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کے ذرائع ہیں، لیکن خدا کو جاننے اور اس کی معرفت حاصل کرنے کیلئے اگر صرف عقل اور علم کافی ہوتے تو ہر عالم عارف ہوتا۔