پاک۔ طالبان امن مذاکرات ‘ ثالثوں کی عسکریت پسندوں سے ملاقات

اسلام آباد۔ 9؍فروری (سیاست ڈاٹ کام)۔ حکومت پاکستان کے ساتھ پاکستانی طالبان کی امن بات چیت میں طالبان کی نمائندگی کرنے والے دو ثالثوں نے لاقانونیت کے مرکز شمالی وزیرستان قبائیلی علاقہ میں عسکریت پسندوں کی قیادت سے ملاقات کی اور انھیں پہلے مرحلہ کے مذاکرات کی تفصیلات سے واقف کروایا۔ جماعت اسلامی کے قائد محمد ابراہیم اور جمعیت العلمائے اسلام سمیع الحق گروپ کے ترجمان مولانا یوسف شاہ سرکاری ہیلی کاپٹر میں شمالی وزیرستان پہنچے۔ مقامی ذرائع ابلاغ کی خبریں متضاد ہیں۔ اجلاس کے دوران جو کچھ تبادلۂ خیال ہوا، اس کے بارے میں مختلف ذرائع ابلاغ نے مختلف خبریں شائع اور نشر کی ہیں۔ بعض گوشوں کا کہنا ہے کہ طالبان نے کوئی مطالبات پیش نہیں کئے جب کہ خبر رساں ٹی وی چینلس نے خبر نشر کی ہے کہ طالبان نے قید عسکریت پسندوں کی رہائی اور شرعی قوانین پر عمل آوری بات چیت کے لئے شرائط کے طور پر پیش کی ہیں۔ آزاد ذرائع سے کسی بھی خبر کی توثیق نہیں ہوسکی۔ دونوں ثالثوں نے پہلے تو شمالی وزیرستان میں سیاسی ایجنٹ سے ملاقات کی اور اس کے بعد طالبان قائدین سے ملاقات کے لئے نامعلوم مقام پر روانہ ہوگئے۔ توقع کی جاتی ہے کہ دونوں ثالث آج بعد ازاں واپس آجائیں گے۔ اس کے بعد ہی طالبان کے مذاکرات کے بارے میں واضح صورتِ حال منظر عام پر آسکے گی۔

ابراہیم تحریک طالبان پاکستان کی مقررہ کمیٹی برائے امن مذاکرات کے رکن ہیں اور شاہ کمیٹی کے رابطہ کار ہیں۔ دونوں ثالث وزارت داخلہ کے فراہم کردہ ہیلی کاپٹر کے ذریعہ میراں شاہ پہنچے اور امن مذاکرات کی نگران کار 9 رکنی طالبان کی کمیٹی سے ملاقات کی دونوں فریقین کے ثالثوں نے رسمی طور پر پہلے مرحلہ کے امن مذاکرات کے لئے ملاقات کی تھی جس کا مقصد تقریباً 10 سال طویل شورش کا خاتمہ تھا جس میں ہزاروں جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ جمعرات کے دن دونوں فریقین نے دونوں جانب سے مستقبل کی بات چیت کے لئے مطالبات کی شکل میں ایک لائحہ عمل پیش کیا تھا۔ حکومت کا اصرار تھا کہ کوئی بھی بات چیت دستور پاکستان کے چوکھٹے میں ہی کی جاسکتی ہے، تاہم امن کارروائی کو جمعہ کے دن دھکہ لگا جب کہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ کی 3 رکنی کمیٹی کے ایک رکن اسلام آباد کی لال مسجد کے عالم دِین مولانا عبدالعزیز نے مذاکرات دستور کے تحت منعقد کرنے کی شرط مسترد کردی۔ وسیع پیمانے پر یہ یقین تھا کہ طالبان کے نمائندے بنیاد پرست عالم دِین جو بابائے طالبان بھی کہلاتے ہیں، سمیع الحق، جماعت اسلام کے قائد ابراہیم خان اور عبدالعزیز اس شرط سے متفق ہیں۔ شکوک و شبہات میں شدت پیدا نہیں ہوسکی، کیونکہ امن مذاکرات کا مقصد تحریک طالبان پاکستان کی زیر قیادت شورش کا پائیدار حل تلاش کرنا ہے

جس سے ہزاروں انسانی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ عبدالعزیز نے کہا کہ وہ طالبان کی نامزد 3 رکنی ٹیم کے رکن برقرار رہیں گے اور بات چیت کی میز پر نہیں آئیں گے۔ مبصرین نے کہا کہ ان کے اس اقدام سے بات چیت کی اہمیت کم ہوجاتی ہے، کیونکہ سرکاری کمیٹی نے طالبان کے نمائندوں کے اختیارات کے بارے میں شکوک و شبہات ظاہر کئے ہیں۔ حکومت کے نمائندوں نے منگل کے دن ابتدائی مذاکرات میں شرکت نہیں کی تھی جس کی وجہ سے طالبان کی ٹیم کے دو ارکان نے بات چیت سے ترکِ تعلق کرلیا تھا اور بات چیت کے مستقبل کے بارے میں اُلجھن پیدا ہوگئی تھی۔ وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے پہلے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کی اجازت دی تھی اور دو دن کی کارروائی کے بعد پاکستانی طالبان کو بات چیت کی دعوت دی تھی۔ اس پر پاکستانی طالبان نے بھی مثبت ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امن مذاکرات کے پہلے دور میں شرکت کی تھی۔ اس کے دو نمائندے پہلے دور کی بات چیت میں شامل تھے۔