پاکستان ‘ نئی حکومت نئے چیلنج

اللہ رکھے دیواروں کو
چڑھتا دریا دیکھ رہے ہیں
پاکستان ‘ نئی حکومت نئے چیلنج
پڑوسی ملک پاکستان میں جیسے تیسے انتخابی عمل مکمل ہوگیا ہے ۔ رائے دہی اور پھر نتائج کے اعلانات نے واضح کردیا ہے کہ اس ملک میں کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہیںہوئی ہے تاہم عمران خان کی قیادت والی پاکستان تحریک انصاف کو سب سے بڑی پارٹی کا موقف حاصل ہوگیا ہے ۔ حالانکہ ان کی پارٹی کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے لیکن آثار و قرائن سے یہی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ کرکٹر سے سیاستدان بننے والے عمران خان پاکستان کے آئندہ وزیر اعظم ہونگے ۔ کسی بھی سیاست دان یا پھر کسی بھی سیاسی پارٹی کیلئے انتخابی جنگ میں کامیابی اور ملک کے اعلی ترین دستوری عہدہ کا حصول اس کی سیاسی زندگی کا بام عروج ہوتا ہے لیکن پاکستان کی وزارت عظمی عمران خان کیلئے کوئی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا تاج ثابت ہوسکتی ہے ۔ عمران خان اپنے کرکٹ کیرئیر میں انتہائی مقبول رہے ہیں اور انہیں کامیاب ترین کپتانوں میںشمار کیا جاتا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان کی سیاسی اننگز میں وہ کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ اس کامیابی کیلئے انہیں نہ صرف تن تنہا جدوجہد کرنی ہوگی بلکہ جس طرح کرکٹ میں تمام کھلاڑیوں کے رول کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انہیں اپنے تمام ساتھیوں اور پاکستان کے سارے عوام کو بھی ساتھ لے کر انہیںاعتماد میںلے کر چلنے کی ضرورت ہوگی ۔ ان کیلئے جہاں اندرون ملک حالات کو بہتر بنانے پر اور عوام کی توقعات کو پورا کرنے پر توجہ دینا ضروری ہے اسی طرح ان کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی جو شبیہہ متاثر ہوکر رہ گئی ہے اس کو بہتر بنایا جائے ۔ اس کیلئے انہیں اندرون ملک دہشت گردانہ سرگرمیوں کو اور تخریب کار عناصر کی سرکوبی کی ضرورت ہوگی ۔ ہندوستان کے ساتھ پرامن باہمی تعلقات کی اہمیت کو انہیں سمجھنا ہوگا ۔ انہیں جب تک یہ احساس نہیں ہوگا کہ ہندوستان کے ساتھ پرامن اور پڑوسیوں جیسے خوشگوار تعلقات خود پاکستان کے حق میں زیادہ مفید ہیں اس وقت تک ان سے کسی کامیاب حکمت عملی کی امید نہیں کی جاسکتی ۔
اب تک پاکستان میںجتنی بھی حکومتیں ایک کے بعد دیگرے قائم ہوئی ہیں سبھی نے مختلف وعدے کرتے ہوئے پاکستانی عوام سے ووٹ حاصل کیا تھا ۔ اب عمران خان نے ایک نیا پاکستان تعمیر کرنے کے وعدہ پر ووٹ حاصل کئے ہیں۔ انہیں اندرون ملک عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ کرپشن کا خاتمہ ان کی اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔ نگہداشت صحت کی سہولیات کو مستحکم کرنا ہوگا ۔ عوامی انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے کے اقدامات کرنے ہونگے ۔ روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہوگا ۔ اندرون ملک مہنگائی پر قابو پانا ہوگا ۔صنعتی ترقی کو یقینی بنانا ہوگا ۔ پاکستان کی جملہ گھریلو پیداوار بہتر بنانے پر توجہ دینے کی ضـرورت ہوگی ۔ ان سب کے ساتھ ساتھ انہیں بین الاقوامی سطح پر پاکستان جو یکا و تنہا ہوتا جا رہا ہے اس صورتحال کو بھی بدلنے کیلئے کام کرنا ہوگا ۔ انہیں ان عناصر کی سرکوبی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھنی چاہئے جن کی وجہ سے پاکستان کی سارے عالم میں رسوائی اور بدنامی ہو رہی ہے اور پڑوسیوں سے اس کے تعلقات متاثر ہو کر رہ گئے ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر کئی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات متاثر ہوگئے ہیں اور انہیں بہتر بنانے کیلئے ایک جامع اور مبسوط حکومت عملی کے تحت کام کرنا ہوگا ۔ خاص طور پر ہندوستان کے ساتھ پاکستان کو بہتر پڑوسیوں جیسے خوشگوار تعلقات بحال کرنے پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہوگی ۔
نیا پاکستان بنانے کا وعدہ اس وقت تک پورا نہیں ہوسکتا جب تک نئی تشکیل پانے والی حکومت ایک عزم اور حوصلے کے ساتھ کام کا آغاز نہ کرے ۔ صرف اقتدار کے مزے لوٹنے ہیں تو پھر یہ کام تو پاکستان کی تاریخ میں تقریبا سبھی حکمرانوں نے کیا ہے ۔ کچھ نے کچھ کام بھی کئے ہونگے اور یہی حال عمران خان کا بھی ہوسکتا ہے لیکن ان سے عوام نے جو توقعات وابستہ کی ہیں اگر ان کو پورا کرنے پر توجہ دی جائے اور پوری سنجیدگی کے ساتھ پاکستانی عوام کے ذہنوں میںحکمرانوں کی شبیہہ کو اور عالمی سطح پر خود پاکستان کی شبیہہ کو بہتر بنانے پر کام کیا جاسکتا ہے تو کوئی عجب نہیں کہ پاکستان بھی ترقی کے سفر میں علاقہ کے دیگر ممالک کا ہمسفر بن جائے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات بہتر ہوجائیں۔ بین الاقوامی اور خارجی محاذ پر تعلقات کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے نئی حکومت کو ایک سیاسی عزم اور حوصلے کے ساتھ شروعات کرنی ہوگی اور اسی وقت اسے کامیابی ملنے کی امید کی جاسکتی ہے ۔