اک طرفہ تماشا ہے کمبخت سیاست بھی
اقرارِ محبت بھی ، اظہارِ عداوت بھی
پاکستان میں شدت پسند عناصر مسترد
پاکستان میں حال ہی میں ہوئے عام انتخابات کے نتائج حالانکہ کچھ اعتبار سے توقعات کے مطابق ہی رہے ہیں کیونکہ بہت پہلے سے یہ قیاس کیا جارہا تھا کہ عمران خان کی قیادت والی تحریک انصاف پارٹی کو ہی اکثریت ملے گی اور وہ پاکستان میں نئی حکومت بنائیں گے ۔ حالانکہ تحریک انصاف پارٹی کو اپنے بل پر قطعی اکثریت حاصل نہیں ہوسکی ہے ۔ ان انتخابات میں کئی مثبت پہلو بھی سامنے آئے ہیں۔ پاکستان کے داخلی معاملات کے اعتبار سے جو امیدیں کی جا رہی ہیں وہ یہ ہیں کہ وہاں کرپشن کے خاتمہ کیلئے ان نتائج سے مدد ملے گی کیونکہ عمران خان نے اس کا عہد کیا تھا ۔و ہ اب تک جو اشارے دے رہے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ عمران خان سرکاری اخراجات میں کمی پر بھی توجہ دینگے اور عوامی مسائل کی یکسوئی کیلئے کام کریں گے ۔ تاہم جنوبی ایشیا اور ساری عالمی برادری اور خاص طور پر ہندوستان کے نقطہ نظر سے ایک بات اہمیت کی حامل ہے وہ یہ کہ ان انتخابات میں عوام نے شدت پسند عناصر کو یکسر مسترد کردیا ہے ۔ انتخابات کیلئے جس وقت مہم چل رہی تھی اس وقت حافظ سعید جیسے دہشت گرد اور دوسرے کٹر پسند عناصر انتخابی میدان میں سرگرم دکھائی دے رہے تھے ۔ یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے کہ ان عناصر کو پاکستان کی فوج نے میدان میں اتارا ہے تاکہ وہ حکومتی کام کاج میں اپنے عناصر کو داخل کرکے سرکاری امور پر اثر انداز ہوسکے ۔ تاہم جس طرح سے حالات سامنے آئے ہیں اور انتخابی نتائج نے پاکستانی عوام کی رائے کو ظاہر کردیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی اکثریت نے ان شدت پسندوں کو اور ہندوستان کے خلاف زہر افشانی کرنے والے عناصر کو یکسر مسترد کردیا ہے ۔ جو اعداد و شمار اب تک سامنے آئے ہیں ان کے اعتبار سے پاکستان میں صرف 9 فیصد رائے دہندوں نے شدت پسند عناصر کے حق میں ووٹ دیا ہے وہ بھی کسی ایک جماعت کے حق میں نہیں ۔یہ ووٹ بھی چیدہ چیدہ امیدواروں کے حق میں دئے گئے ہیں اور عملا انہیں یکسر مسترد کردیا گیا ہے ۔
ہندوستان میں میڈیا کے حلقے ہوں یا سیاسی حلقے ہوں یہ اندیشے ظاہر کئے جا رہے تھے کہ ان انتخابات میں مخالف ہند جذبات کو بھڑکانے اور شدت پسندی اختیار کرنے والے عناصر کو تقویت مل سکتی ہے ۔ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا اور یہ عناصر خود پاکستانی عوام میں کوئی مقام حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مذہبی شناخت رکھنے والی جماعتوں کے صرف دو ارکان شائد منتخب ہوئے ہیں وہ بھی ایسے گروپس سے تعلق رکھتے ہیں جن پر کسی طرح کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا کوئی الزام نہیں ہے اور یہ صرف اپنے مسلک کے اعتبار سے شدت پسند سمجھے جاتے ہیں۔ یہ مسلکی اختلافات یا گروپ بندی پاکستان کا داخلی مسئلہ ہے لیکن جن عناصر سے خود پاکستان یا پھر جنوبی ایشیا کے امن کو خطرات درپیش ہوسکتے تھے وہ عناصر اب دھول چاٹنے پر مجبور کردئے گئے ہیں۔ انہیں ان کی اوقات دکھا دی گئی ہے اور یہ واضح پیام دیا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام کی ایک بڑی اکثریت ایسے عناصر کو پسند نہیں کرتی جو امن کیلئے خطرہ سمجھے جاتے ہیں یا پھر وہ پاکستان کیلئے ساری دنیا یا جنوبی ایشیا میں رسوائی کا باعث بن رہے ہیں ۔ ان عناصر کی سرکوبی میں اب تک قائم ہونے والی پاکستان کی حکومتیں بھی کامیاب نہیں ہوسکی تھیں۔ حکومتوں کی جانب سے شائد ان عناصر کے خلاف کارروائی میں کسی طرح کی سنجیدگی نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ کامیاب نہیں ہو پائی تھیں۔ اب پاکستان کے عوام نے ان کے خلاف اپنے ووٹ کا استعمال کرکے خود حکومت کیلئے بھی ایک مثال قائم کردی ہے ۔
ان عناصر کی سرکوبی سے پاکستان اور جنوبی ایشیا میں امن کے قیام میں بڑی حد تک مدد مل سکتی ہے تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں قائم ہونے والی نئی حکومت اس سمت میں ایک عزم اور سیاسی حوصلے کے ساتھ کام کرے ۔ جب تک حکومت کی جانب سے سنجیدگی کے ساتھ کوشش نہیں کی جاتی اس وقت تک ان عناصر کی مکمل سرکوبی ممکن نہیں ہوسکتی ۔ اب جبکہ پاکستان کے عوام نے اپنے ووٹ کے ذریعہ ایک موقع فراہم کیا ہے تو اس سے استفادہ کیا جانا چاہئے اور اگر ایسا کرنے میں کامیابی ملتی ہے تو شدت پسندی کی جو لعنت ہے اس کو ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ صرف پاکستان میں بلکہ اس کے تمام پڑوسی ممالک اور خاص طور پر ہندوستان اور سارے جنوبی ایشیا میں امن کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے ۔