پاکستان میں سیاسی تبدیلی اور ہندوستان پر اثرات !

کشمیر کے حالات اور کلبھوشن جادھو کیس پر سب کی نظر

کراچی ۔29جولائی ۔(سیاست ڈاٹ کام) اب جبکہ نواز شریف نے پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے سپریم کورٹ کی جانب سے اُنھیں نااہل قرار دیئے جانے پر استعفیٰ دیدیا ہے وہیں اب یہ محسوس کیا جانے لگا ہیکہ اس کے ہندوستان پر منفی اثرات مرتب ہوں گیا یا مثبت ۔ سب سے پہلے تو یہی خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ کشمیر میں دہشت گردوں کی دراندازی میں اضافہ ہوگا جس کا نتیجہ سنگ باری اور حملوں کی صورت میں ظاہر ہوگا ۔ پاکستان کی کشمیر پر جو بھی پالیسی رہی ہو اُس میں پاکستانی افواج کا ہمیشہ سے ہی کلیدی رول رہا ہے۔ اس طرح اب نواز شریف کے سیاسی منظرنامہ سے غائب ہوجانے کے بعد کشمیر کے داخلی معاملات میں سیویلین حکومت کے فیصلے صفر کے برابر ہوجائیں گے ۔یہاں یہ بات ضرور مضحکہ خیز نظر آئے گی کہ حالیہ دنوں میں دہشت گردوں کو یہ ’’شکایت ‘‘ پیدا ہوگئی تھی کہ نواز شریف کی مداخلت کی وجہ سے اُن کے لئے وسائل میں ہرگزرتے دن کے ساتھ کمی ہوتی جارہی ہے ۔ اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ ہندوستان کو اس سلسلہ میں فوج سے مذاکرات کرنی پڑے گی جو ہندوستان کی وضع کردہ پالیسی کے مغائر ہے جس سے پاکستان میں سزائے موت پر عمل آوری کے منتظر ہندوستانی شہری کلبھوشن جادھو معاملہ بھی اثرانداز ہوگا ۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہیکہ جس طرح جیش محمد اور لشکر طیبہ نے اپنی سرگرمیوں میں توسیع کی ہے ، پاکستان کے حالیہ سیاسی پس منظر میں آئی ایس آئی ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اپنی سرگرمیوں میں توسیع کرسکتی ہے حالانکہ پاکستان یہ جانتا ہے کہ ہندوستان اور امریکہ دو ایسے ممالک ہیں جو کسی بھی وقت فوجی کارروائی کرسکتے ہیں۔ ہندوستان اور چین کے درمیان سکم تنازعہ نے جو نیا رُخ اختیار کیا ہے اُس کے پاکستانی سیاسی منظرنامہ کی وجہ سے کیا اثرات مرتب ہوں گے ۔ اس کے بارے میں تو فی الحال کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن نواز شریف جیسے اولوالعزم ، سخت گیر اور کبھی کبھی صورتحال دیکھتے ہوئے نرم موقف اختیار کرنے والے لیڈر کے یوں اس طرح پاکستان کے سیاسی منظرنامہ سے غائب ہوجانا اگر کچھ ممالک کے لئے باعث تشویش ہے تو کچھ ممالک نے سکون کی سانس بھی لی ہے ۔ لہذا اگر مستقبل قریب میں چین ، پاکستان میں بھی اپنا فوجی اڈہ قائم کردے تو حیرت کی بات نہیں ہوگی ۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان میں ہندوستانی سرحد سے قریب چینی فوجی اڈہ کا قیام ہندوستان کے لئے متعدد وسکیورٹی مسائل پیدا کرسکتا ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ ہندو پاک کے درمیان امن بات چیت پہلے ہی سردخانے کی نذر ہوچکی ہے تاہم اب یہ اندیشے بھی پیدا ہوگئے ہیں کہ اس پر مزید جمود طاری ہوجائے گا ۔یہ اندیشے بھی ہیں کہ پاکستانی فوج بلوچستان میں ایک اور کارروائی کرسکتی ہے جو یقینا ہندوستان کیلئے لمحۂ فکریہ ہوگا ۔
آج یہ کہنا بھی درست نظر آتا ہے کہ کسی بھی ملک میں چاہے وہ مغربی ہو ، یوروپی ہو یا ایشیائی ہو ، کسی مضبوط اور مستحکم قیادت کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ عوام کو یہ طمانیت حاصل رہے کہ وہ اپنے منتخب کردہ قائدین کی حفاظت میں ہیں ورنہ دُنیا میں ایسے بھی کئی چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں جہاں ’’ہم جنس پرست ‘‘ قائدین کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور ہے جیسے آئرلینڈ اور آئس لینڈ وغیرہ ۔ نواز شریف نے تیسری بار مستعفی ہوکر نئی تاریخ رقم کی ہے کہ وہ اس سے پہلے بھی دوبار جب مستعفی ہوئے تھے تو انھوں نے اپنی میعاد مکمل نہیں کی تھی اور تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ سیاسی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ نواز شریف کے بھائی شہباز شریف اُن کا متبادل نہیں ہوسکتے کیونکہ دونوں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں( بھائی بھائی ہیں)اور پاناما پیپرس اسکینڈل میں جب پورا خاندان ہی ملوث ہو تو شہباز شریف اس سے مستثنیٰ کیسے ہوسکتے ہیں ؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ پاکستانی سیاست آخر کس کروٹ بیٹھے گی ؟