اسلام آباد۔ 22؍فروری (سیاست ڈاٹ کام)۔ پاکستان اور سعودی عرب میں دیرینہ قریبی تعلقات ہیں، لیکن پاکستان کی جانب سے انتہاپسندی کی بنیادی وجوہات کے خلاف جدوجہد کے پختہ اِرادے کو سعودی عرب کی تنقید کا سامنا ہے، جو ایک کمیاب واقعہ ہے۔ دونوں ممالک میں جہاں مسلمانوں کی غالب آبادی ہے، ایک دوسرے کے ساتھ مشترکہ مذہبی اِسلامی اقدار کے ذریعہ متحد ہیں۔ تیل کی دولت سے مالامال سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو مالی امداد اور پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کو فوجی امداد سے ہر ایک واقف ہے، لیکن ایک اسکول میں طالبان کی جانب سے قتل عام جس میں گزشتہ دسمبر میں 150 سے زیادہ افراد جن میں بیشتر بچے تھے، ہلاک کردیئے گئے تھے۔ اس کے نتیجہ میں حکومت نے عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی شروع کردی اور دِینی مدرسوں کو زیادہ سخت کنٹرول کے تحت لانے کی بات چیت کا آغاز ہوگیا۔ اب ملک کے ذرائع ابلاغ یہاں تک کہ وزراء نے اعتراض کرنا شروع کردیا ہے کہ کیا سعودی عرب کی جانب سے دِینی مدارس کو امداد پُرتشدد انتہا پسندی کی آگ بھڑکا رہی ہے
اور پہلی بار دونوں ممالک کے تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ سعودی سفارت خانہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے تمام عطیہ جات جو دِینی مدرسوں کو دیئے گئے ہیں، سرکاری منظوری کے بعد ہی دیئے گئے ہیں۔ ایک وزیر نے سعودی عرب کی حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ پورے عالم اِسلام میں عدم استحکام پیدا کررہا ہے۔ وزارت خارجہ پاکستان نے جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ افراد کی ’رسمی ذرائع‘ کے واسطے سے امداد کی بھی قریبی جانچ کی جائے گی تاکہ دہشت گرد گروپس کو مالیہ کی فراہمی کا انسداد ہوسکے۔ ایک بیان میں سعودی عرب کا واضح طور پر تذکرہ کرنے سے گریز کیا گیا ہے، لیکن اس بیان کو وسیع پیمانے پر سرزنش سمجھا جارہا ہے۔ دِینی مدرسوں کے علاوہ وسیع پیمانے پر سعودی عرب کے شاہی خاندان کے معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار کمیاب پرندہ ہوبارابسٹرڈ کے شکار پر بھی شدید تنقید کی جارہی ہے جسے مشرق وسطیٰ میں کافی قیمتی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ اس میں مبینہ طور پر قوتِ باہ میں اضافہ کرنے کی خاصیت ہوتی ہے۔ یہ پرندہ پاکستان کے شمالی صوبوں سندھ اور بلوچستان میں پایا جاتا ہے۔ سرکاری عہدیداروں نے اس پرندے کے شکار کی اجازت دی تھی جو بین الاقوامی یونین برائے تحفظ فطرت کی معدونیت کے خطرے سے دوچار ’جانوروں کی سرخ فہرست‘ میں شامل ہے اور عدالت کے حکم کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس پر حکومت تنقید کی نشانہ بن گئی تھی، کیونکہ اس نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو خود اپنی جنگلاتی زندگی پر ترجیح دی تھی۔ رسالہ ’ہیرالڈ‘ کے ایڈیٹر بدر عالم جو پاکستان کا تازہ ترین اُمور کا بااحترام رسالہ ہے، نے کہا کہ تنقید کی حالیہ لہر کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سعودی عرب کے پاکستان میں وسیع تجارتی اور معاشی مفادات ہیں۔ ان تعلقات پر کھل کر اعتراض کیا جارہا ہے۔ قبل ازیں کسی نے بھی اس قسم کے اعتراض نہیں کئے تھے۔ اب اُردو اخبارات میں بھی ایسے اعتراضات کئے جارہے ہیں۔
اُس وقت کی وزیر خارجہ امریکہ ہلاری کلنٹن نے 2009ء میں کہا تھا کہ سعودی عرب کے عطیہ دہندہ دہشت گرد گروپس کو عالم گیر سطح پر مالیہ فراہم کرنے کے نمایاں وسائل ہیں۔ ان کے اس بیان کو سفارتی کیبلس میں افشاء کیا گیا تھا۔ اس افشاء میں کہا گیا تھا کہ طالبان، القاعدہ اور پاکستان کی فرقہ پرست عسکریت پسند جماعت لشکر جھانگوی ایسا مالیہ حاصل کرنے والی اہم جماعتوں میں سے ایک ہے، لیکن سابق معتمد خارجہ اور سفیر نجم الدین شیخ نے دسمبر میں کہا تھا کہ پشاور کے فوجی اسکول پر حملہ جس میں 153 افراد ہلاک جن میں 134 بچے تھے، تنقید کا سیلاب آنے کی وجہ ہے۔ اس سے پشاور میں احساسات شدید مجروح ہوئے کہ بیشتر دہشت گردی جو اس شہر میں پائی جاتی ہے، بیرونی ممالک سے مالیہ حاصل کرتی ہے۔ کویت، متحدہ عرب امارات اور قطر اس کی تخفیف میں بہت کچھ کرسکتے ہیں، لیکن کوئی بھی کوشش انتہا پسند دِینی مدرسوں کو غیر ملکی مالیہ کی فراہمی روکنے کے لئے اسی طرح کی پاکستانی کوششوں سے ہم آہنگ ہونی چاہئے۔ انھوں نے کہا کہ اس میں نیابتی گروپس کے ساتھ تعلقات منقطع کرنا بھی شامل ہے جو تاریخی اعتبار سے فوجی انتظامیہ کی جانب سے دفاعی مقاصد میں پیشرفت کے لئے افغانستان اور ہندوستان زیر انتظام کشمیر میں استعمال کئے جاتے رہے ہیں۔ انھوں نے تحریر کیا کہ ہمارا مالیہ اندرون پاکستان ابھی تک استعمال نہیں کیا گیا۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بیرون ملک سے مزید مالیہ کی ضرورت ہے تو اندرون ملک زیادہ کوشش ضروری ہوگی۔