واشنگٹن ۔ 28 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) امریکی قانون سازوں کو نئی تشکیل شدہ مہاجر گروپ نے یہ اطلاع دی ہیکہ پاکستان کی آئی ایس آئی اندرون ملک دہشت گرد تنظیموں کی مدد کررہی ہے اور اس طرح القاعدہ اور طالبان جیسی بدنام زمانہ تنظیمیں پاکستان کے بندرگاہی شہر کراچی پر کنٹرول حاصل کرنے کی تیاریاں کررہی ہیں۔ ورلڈ مہاجر کانگریس نے ایوان کی خارجی امور کمیٹی کو ایک مکتوب تحریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اس وقت انتہاء پسند گروپس کا محفوظ ٹھکانہ بنتا جارہا ہے جس کیلئے انہیں پاکستان کی انٹلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کا بھرپور تعاون حاصل ہے۔ مذکورہ مکتوب افغانستان پر کانگریشنل سماعت کے دوران پیش کیا گیا تھا۔ ورلڈ مہاجر کانگریس کے نمائندوں نے ایوان کی خارجی امور کمیٹی کے ارکان سے ملاقات کرتے ہوئے آئی ایس آئی اور دہشت گرد گروپس کے درمیان مبینہ روابط کے بارے میں تفصیلات بتائی تھیں۔ مکتوب میں واضح طور پر اس بات کا اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ آئی ایس آئی کی حمایت کی وجہ سے جہادی تنظیمیں مستحکم ہوتی جارہی ہیں۔ اس طرح اہم بندرگاہی شہر کراچی جو یو ایس اور ناٹو کا اہم سپلائنگ لائن ہے، پر دہشت گرد تنظیمیں اپنا کنٹرول حاصل کرسکتی ہیں۔ ہمیں ڈر ہیکہ کراچی اب پوری طرح محفوظ نہیں بلکہ مہاجر برادری خصوصی طور پر بچوں کا تحفظ بہت ضروری ہے کیونکہ یہ جہادی تنظیمیں بچوں کا اغواء کرتی ہیں اور ان کا برین واش کرنے کے بعد انہیں خودکش بمبار، جہادی اور مذہبی جنونی بنادیتی ہیں۔ کراچی چونکہ پاکستان کا اہم بندرگاہی شہر ہے لہٰذا طالبان، دولت اسلامیہ اور القاعدہ جیسی تنظیمیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں کہ کراچی پر ان کا کنٹرول ہوجائے۔ اس طرح اگر ایک بار انہوں نے خدانخواستہ کراچی پر کنٹرول حاصل کرلیا تو ان کے ایجنڈہ پر عمل آوری کیلئے درکار افرادی قوت اور مالیہ کے حصول کیلئے نئے وسائل کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ پاکستان کی مسلح افواج اور دولت اسلامیہ میں مبینہ طور پر طالبان حامی اور اسلامی انتہاء پسند عناصر میں اضافہ ہوتا جارہا ہے جن کی دامے، درمے سخنے مدد کی جارہی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہیکہ پاکستان میں ہمیشہ جمہوری حکومت پر خطرہ کے بادل منڈلاتے رہے ہیں اور جب جب فوجی حکومت برسراقتدار آئی، انتہاء پسند قوتوں کو کچل کر رکھ دیا گیا۔ مرحوم جنرل ایوب خان سے لیکر ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے دورحکومت کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ اس وقت انتہاء پسندی اتنی عروج پر نہیں تھی جتنی کہ آج ہے۔ مرحوم ایوب خان کے زمانے میں تو خیر اس کا وجود ہی نہیں تھا۔ دوسری طرف جہادی گروپس یہ جانتے ہیں کہ ہندوپاک کے درمیان مسئلہ کشمیر گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے اور پاکستان کی معیشت کو اگر انہوں نے (جہادی گروپس) کھوکھلا کرنے کی کوشش شروع کی تو اس سے ہندوستان کو یقینی طور پر کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔