پاکستان میں ایک بار پھر انسداد پولیو مہم کا آغاز

شورش پسندوں کے حملہ کا اندیشہ، 3000 پولیس اہلکار تعینات، صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں پولیس کے نئے کیسیس
کراچی 29 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان میں انسداد پولیو کی ٹیم حالانکہ انتہائی جانفشانی سے اپنا کام انجام دیتی ہے لیکن طالبان کے ذریعہ ان پرحملہ کے اندیشے ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔ صوبہ سندھ میں آئندہ ماہ چار روزہ انسداد پولیو مہم کے ذریعہ پولیو کی ٹیکہ اندازی کا پروگرام زور و شور سے منعقد کیا جانے والا ہے تاہم سکیوریٹی کے پیش نظر 3000 پولیس اہلکاروں کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ٹیکہ اندازی مہم بخیر و خوبی انجام پائے اور ٹیم کے ارکان کا تحفظ بھی ہوجائے۔ دریں اثناء ایک سینئر پولیس عہدیدار نے کہاکہ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے انسپکٹر جنرل آف پولیس کو ٹیکہ اندازی کرنے والی ٹیم کو خصوصی تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے جہاں وہ 3 تا 6 نومبر انسداد پولیو مہم کے تحت اپنی ذمہ داری انجام دیں گے۔ سینئر پولیس آفیسر منیر شیخ نے مزید بتایا کہ یہ فیصلہ سکیوریٹی کے شعبہ میں بہتر انتظامات کو ملحوظ رکھنے کے لئے منعقدہ ایک اجلاس میں کیا گیا۔

یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپ ہوگا کہ پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالخلافہ کراچی میں پولیو کے خلاف مہم چلانے والے بھی شورش پسندوں کا شکار بن چکے ہیں۔ شورش پسندوںیہ بات بھی پسند نہیں کہ پولیو کے خلاف لڑائی جاری رکھی جائے۔ شورش پسند نہیں چاہتے کہ انسداد پولیو کی کوئی مہم چلائی جائے۔ منیر شیخ نے کہاکہ وزیراعلیٰ نے وضاحت کردی ہے کہ پولیو ٹیم کو بغیر کسی کوتاہی کے مکمل سکیوریٹی فراہم کی جائے اور ساتھ ہی ساتھ ان کے کھانے پینے اور آمد و رفت کا بھی معقول انتظام ہونا چاہئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ کراچی کے قیوم آباد علاقہ میں گزشتہ سال پولیو ٹیم پر حملہ کیا گیا تھا جن میں تین ورکرس بشمول دو خواتین فائرنگ میں ہلاک ہوگئی تھیں جبکہ جاریہ سال پولیو مہم سے وابستہ ٹیم پر حملہ کے دوران ایک ایسا پولیس اہلکار جسے سکیوریٹی کی ڈیوٹی تفویض کی گئی تھی، جاں بحق ہوگیا جبکہ 2012 ء میں لانڈھی میں کئے گئے حملہ میں چار خاتون ہیلتھ ورکرس ہلاک ہوئی تھیں۔

یہ حملے بلدیہ ٹاؤن اور اورنگی میں بھی کئے گئے تھے۔ سہراب گوٹھ میں اقوام متحدہ سے وابستہ ایک مقامی آفیسر پر بھی حملہ کیا گیا تھا لیکن خوش قسمتی سے وہ صرف زخمی ہوا تھا اور ہاسپٹل میں کافی دنوں کے علاج کے بعد اُسے بالآخر ڈسچارج کیا گیا تھا۔ ان واقعات نے ہیلتھ سے وابستہ حکام کو لرزہ برندام کردیا اور سکیوریٹی کے ناقص انتظامات کو وجہ بتا کر انسداد پولیو ٹیم نے اپنی مہم کا سلسلہ مسدود کردیا تھا۔ پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتاہے جسے پولیو سے ہنوز نجات نہیں ملی ہے جبکہ سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ صوبوں میں پولیو کے کچھ نئے معاملات منظر عام پر آئے ہیں جس کے بعد ایک بار پھر پولیو مہم کا آغاز کرنا ناگزیر ہوگیا لیکن دوسری طرف شورش پسندوں کا خوف بھی غالب ہے حالانکہ دنیا میں ایسا کوئی ملک نہیں ہوگا جہاں کسی بیماری کے تدارک کیلئے کئے جانے والے اقدامات میں رخنہ اندازی کی جاتی ہو۔