جو میرے بعد میری بوٹیوں کا کرلیں بٹوارا
بنے انسان دیکھو بھیڑیے خونخوار بیٹھے ہیں
پاکستان میں اسکولی طلباء پر حملے
پاکستان میں بدترین سیاسی دشمنی اور دہشت گردی کے واقعات کے درمیان معصوم بچوں کو ہلاک کرنے والے سانحہ میں طالبان نے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں ایک اسکول پر حملہ کرکے اپنی درندگی اور غیرانسانی و شیطانی حرکتوں کا ثبوت دیا ہے۔ اس واقعہ کی مذمت کرنا بھی ایک حقیر بات ہوگی بلکہ طالبان کی بربریت ساری انسانیت کو مضطرب و بے چین کررہی ہے۔ طالبان نے اپنے حملے کی مدافعت کرتے ہوئے اسے اُن کے خاندان والوں پر پاکستانی فوج کے حملوں کا جواب قرار دیا ہے۔ فوج کی کارروائی کا انتقام معصوم بچوں، نہتے اور ننھے طلباء کو ہلاک کرنے کی شکل میں ہوتا ہے تو یہ افسوسناک سوچ اور ان کی ذہنی افلاس کا مظہر ہے۔ طالبان نے ہتھیار جس مقصد کے لئے اٹھائے تھے، یہ مقصد فوت ہوچکا ہے۔ حصول انصاف کیلئے حکومت کو سبق سکھانے کا طریقہ اگر درندگی کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو ہر گوشے سے اس کی مخالفت و مذمت کی جاتی ہے۔ طالبان اپنا خوفناک وجود لے کر انسانیت کیلئے خطرہ بن جائیں تو اس کا انجام وہ خود منتخب کریں گے۔ پاکستان میں ایک طرف جمہوریت کے نام پر اقتدار پر آنے کے لئے سیاسی پارٹیوں میں بدترین رسہ کشی اور دشمنی چل رہی ہے، دوسری طرف انسانوں کی جانوں کے ساتھ درندگی سے کھلواڑ کیا جارہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی قیادت میں حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے والی پارٹیوں کے نزدیک یہ واقعہ کیا مقام رکھتا ہے، اس پر ساری دنیا کی سیاسی زندگی سے وابستہ افراد سوچیں تو انہیں محسوس ہوگا کہ پاکستان کو سرے سے ہی اس ملک کے سیاست دانوں نے تباہ و برباد کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی حکومت یا اس سے پہلی کی حکومتوں کی لاپرواہی نے آج پاکستان میں دہشت گردی کو حیوانیت کی بدترین حد تک پہونچا دیا ہے۔ طالبان نے فوجی اسکول پر حملہ کرکے 130 سے زائد بچوں کو موت کی نیند سلا دیا اور اس فائرنگ میں کئی بچے زخمی ہوئے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج نے بھی جس طرح کی مخالف طالبان کارروائیاں کی ہیں، اس میں بھی طالبان کو نشانہ بنانے کے نام پر مقامی افراد کو سزا دی جارہی ہے۔ جب ظلم بڑھتا ہے تو اس کا ردعمل بھی شدید ہوتا ہے۔ پاکستان میں خون کا بدلہ خون کا سلسلہ اب اسکولوں اور علم کے حصول کے لئے جمع معصوم طلباء تک پہنچ چکا ہے تو اس طرح کے حالات پر شیطانیت بھی شرمسار ہوتی ہوگی۔ پاکستان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ پاکستان کی فوج کو اپنی صلاحیتوں پر ناز ہے اور وہاں کی جمہوری حکومت اپنی سیاسی نااہلیوں کا ثبوت یوں دے رہی ہے کہ دہشت گردوں پر قابو پانے کے بجائے نرم رویہ رکھ کر آئے دن انسانی خون کو بہانے کی کھلی چھوٹ دے رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کی صورتِ حال کو قابو میں لانے کے لئے سیاسی دشمنی ترک کرکے تمام سیاست دانوں کو منظم و موثر منصوبے بنانے ہوں گے۔ انسانی جانوں کے مزید اتلاف کو روکنے کے لئے اور دہشت گردوں کے خلاف منظم کارروائی کرنے کے لئے سخت اقدامات کرنے ہوں گے۔ پاکستانی فوج اور سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے ملک کی حفاظت و عوام کے جان و مال کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے ایسی طاقتوں کے ساتھ نرم پالیسی ترک کرنی ہوگی جو خون کا بدلہ خون یا خون انسانیت کی تعلیمات پر عمل کرنے کو اپنا اصل ایمان سمجھتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کرنے امریکہ کا ساتھ دینے کی وجہ سے پاکستان کو مزید کمزور بنایا جارہا ہے تو یہ پاکستان کے عوام کی ایک ایسے گوشے کی ناپاک سوچ ہے جو خود کو اسلام کی تعلیمات پر چلنے اور جہاد جیسے الفاظ کی غلط اصطلاح کے ساتھ اپنے ملک کی سرزمین کو میدان جنگ میں تبدیل کررہے ہیں اور اس سرزمین کو اپنے ہی معصوم بچوں کے لہو سے خون آلود کرتے جارہے ہیں۔ پشاور اسکول واقعہ نے پاکستان کی نازک صورتِ حال کو عیاں کردیا ہے۔ یہ حیران کن بات ہے کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی اندھادھند کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہنے کے باوجود حکومت اور فوج اس دہشت گردی کی لعنت سے سختی سے نمٹنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ پاکستان کا ہر سیاست داں خود کو منجھا ہوا سیاست داں اور اپنے ملک کی حفاظت کا بیڑہ اٹھانے کی بات کرتا ہے جبکہ وہاں کے حالات واضح کررہے ہیں کہ پاکستانی سیاست اور سیاست دانوں نے ہی ملک کو کمزور کردیا ہے۔ فوج کا رول بھی پاکستان کے عوام کے جمہوری عمل کے تابع ہوکر دہشت گردوں کو کھلی جھوٹ دینے میں ہی قابلیت سمجھی جارہی ہے تو پھر پاکستان کے مستقبل کیلئے فکرمند عوام کو مزید افسوسناک حالات سے دوچار ہونا پڑے گا۔