پاؤں سے معذور 8 سالہ شامی لڑکی کا ترکی میں آپریشن

معصوم کی معذوری کی تصاویر وائرل ، دنیا بھر سے رضاکارانہ عطیات ، ڈاکٹر کُلسو کا قبول کرنے سے انکار
استنبول ۔ 30 ۔ جون : ( سیاست ڈاٹ کام ) : گزشتہ ماہ 8 سالہ مایا مہری جو بغیر پاوں کے پیدا ہوئی تھی ، شامی پناہ گزینوں کے کیمپ میں مصنوعی آلات جو پلاسٹک ٹیوبس اور ٹن کینس میں گھوم پھر رہی تھی لیکن چند لوگوں نے جو اے ایف پی سے تعلق رکھتے تھے، اس کی معذوری کی تصاویر نیٹ پر منتقل کیں جو تیزی سے پھیلیں اور اسے استنبول کو علاج کے لیے منتقل کیا گیا جہاں اُس کی سابقہ معذور زندگی میں تبدیلی کی امید در آئی ہے ۔ ڈاکٹر مہمت ذکی کلسو ، ماہر پروستھیٹکس جو استنبول کلینک میں اس کا علاج کررہے ہیں انہوں نے کہا کہ ’ اللہ نے چاہا تو وہ تین ماہ میں چل پھرنے کے قابل ہوجائے گی ‘ ۔ واضح رہے کہ مایا مہری دراصل آلیپو علاقہ سے تعلق رکھتی ہے جب کہ وہ اچانک ، آپریشن کے سلسلہ میں شمالی شام کے علاقہ ’ ادلیب ‘ کے پناہ گزین کیپ میں رہ رہی ہے جہاں شام میں جاری 7 سالہ خانگی جنگی کے متاثرین رہتے ہیں ۔ پلاسٹک ٹیوب اور ٹن کینس ، اس کے 34 سالہ والد محمد مہری نے بنائے تھے ۔ جو کہ خود اس کے والد بھی اسی معذوری کا شکار ہیں ۔ علاوہ ازیں آپریشن کے سلسلہ میں والد اور دختر کو ’ ترکی حکام ‘ نے استنبول کو منتقل کیا جہاں ان دونوں کا علاج ترکی کے ’ خاص کلینک ‘ میر ہوا ۔ ترکی کے خاص کلینک میں پروستھیٹک پاؤں اس کے والد کو بھی دئیے گئے ۔ لیکن اس کے والد کی پریشانی صرف اس کی دختر 8 سالہ مایا مہری ہے ۔ محمد مہری جن کے مزید 5 بچے ہیں اور صحت مند ہیں اور اس عارضہ سے پاک ہیں ، والد محمد مہری نے کہا کہ ’ وہ اپنی 8 سالہ دختر مایا مہری کو چلتا ، پھرتا ، اسے اپنی زندگی بہ آسانی گزارتا دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ بھی کیمپ کے اسکول کو عام بچوں کی طرح آئے جائے ۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر کلسو نے کہا کہ نیٹ پر 8 سالہ معصوم کو بہ دقت تمام زندگی کو گزارنے والی تصاویر نے ان کے احساسات کو جگایا اور بحیثیت ڈاکٹر اُس کا علاج اور آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اور مایا مہری اور اس کے والد کو پروستھیٹک پاوں اپنے خرچ پر دئیے جس کے لیے پورے عالم سے عطیات کی پیشکش ہوئی۔ تاہم انہوں نے قبول کرنے سے معذرت کی ۔ ڈاکٹر کلسو نے مزید کہا کہ انہیں ’ مایا ‘ کے والد کے بنائے گئے آلات نے مایا کو ’ کم از کم ‘ مایوسی کے اندھیرے سے نکالا اور اس میں نئی امید دکھائی ۔