پانی ایک لاقیمت نعمت

مفتی سید صادق محی الدین فہیمؔ

اس کائنات ارضی میں زندگی کے لئے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہے پانی اور ہوا۔ پانی کی اتنی زیادہ ضرورت ہے کہ اس کے بغیر نہ کوئی حیوان زندہ رہ سکتا ہے نہ سوکھی زمینوں میں زندگی پیدا ہوسکتی ہے، نہ اس سے پھل اور دانے اُگ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا، کیا یہ پھر بھی ایمان نہیں لاتے؟‘‘۔ (الانبیاء؍۳۰)

آسمان سے بارش کا برسنا قدرت کا ایک عظیم کرشمہ ہے، چشموں میں پانی کا جمع ہونا، ندی و تالاب وغیرہ جیسے آبی ذخائر کا وجود بارش ہی کا رہین منت ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورتیں پانی کے بغیر پوری نہیں ہوسکتیں، کرۂ ارض کا تقریباً دو تہائی سے زائد حصہ پانی پر مشتمل ہے، اس زمین پر پانی کا سب سے بڑا ذخیرہ سمندر ہے، سمندر کے پانی کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے کھارا بنایا ہے۔ پانی کا کھارا ہونا بھی افادیت سے خالی نہیں، وہ آلودگیوں کو جذب کرتا ہے اور آلائشوں کو تحلیل کرکے عفونت و گندگی کو ختم کرتا ہے۔ سمندر کا پانی کھارا ہونے کی ایک حکمت یہ بھی ہے کہ وہ سڑنے گلنے، بدبوو تعفن سے محفوظ رہتا ہے۔ زمین سے زیادہ سمندری مخلوقات ہیں جن کی زندگی اور موت سمندر ہی میں ہوتی ہے، اگر یہ پانی میٹھا ہوتا تو اس میں مرنے والی مخلوقات کی سڑاہند سے وہ پانی بالکل ناکارہ ہوجاتا، بجائے فائدہ کے اس سمندر کے پانی سے اٹھنے والا تعفن کرۂ ارض پر بسنے والی مخلوقات کیلئے سم قاتل بن جاتا۔ سمندری پانی کے اتنے زیادہ فوائد کے باوجود اس کا پانی تشنگی بجھانے کا کام نہیں دے سکتا، نہ انسان اس سے تشنگی بجھا سکتے ہیں نہ جانور، نہ اس کاپانی کھیتیوں کو سیراب کرنے کے کام آسکتا ہے

، اس مقصد کی تکمیل کیلئے اللہ سبحانہ نے پورے نظام شمسی کو اس پر مأمور کردیا ہے۔ چاند کی چاندنی اس میں مدوجز پیدا کرتی ہے جو سمند کو حرکت میں رکھ کر اس کے سکون کی وجہ جو خرابی آسکتی ہے اس سے اس کی حفاظت ہوتی ہے، سورج کی تپش سے سمندر سے بخارات اٹھتے ہیں اور آسمان کی بلندی پر پہنچ کر بادل میں تبدیل ہوجاتے ہیں، یہ سارا نظام قدرت ریفائنری کا کام انجام دیتا ہے اور اس کھارے پانی کو میٹھے پانی میں تبدیل کرتاہے۔ ارشاد باری ہے: ’’وہی تو ہے جو باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ مسرت بخش ہوتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم اس بادل کو کسی سوکھی زمین کی طرف پہنچاتے ہیں پھر اس بادل سے پانی برساتے ہیں پھر اس پانی سے ہر طرح کے پھل پیدا کرتے ہیں، ایسے ہی ہم مردوں کو نکال کھڑا کریں گے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو، اور وہ زمین جو اچھی ہوتی ہے اللہ کے حکم سے اس کی خوب پیداوار ہوتی ہے اور وہ زمین جو خراب ہوتی ہے اس سے خس وخاشاک ہی پیدا ہوتے ہیں، اسی طرح ہم اپنی نشانیاں بیان کرتے ہیں ان کے لئے جو جذبۂ تشکر رکھتے ہیں‘‘۔ (الاعراف؍۵۸۔۵۷)
الغرض یہ ایک حقیقت ہے کہ آسمان سے بارش برستی ہے تو مردہ زمینوں میں زندگی پیدا ہوتی ہے اور زمین میں بوئے جانیوالے دانے اور بیج ثمر لاتے ہیں۔ حق سبحانہ کی شان ربوبیت بڑی نرالی ہے، وہی پروردگار تو ہے جو آسمان سے بارش برساکر خشک سالی کا خاتمہ کرتاہے، ہر طرف شادابی و روئیدگی کے جلوے جھلکتے ہیں۔ جب تک رحمت خداوندی مائل بہ کرم نہ ہواس وقت تک نہ سمند سے بخارات اٹھ سکتے ہیں نہ وہ بادلوں میں تبدیل ہوکر آسمان پر چھا سکتے ہیں، نہ اس کی قدرت کے بغیر کھاری کو ختم کرکے میٹھے و شیریں پانی کی بارش برسا سکتے ہیں، وہی تو خالق و مالک ہے اور وہی تو سب کا پالنہار ہے، وہ پانی برساکر اپنی شان ربوبیت ظاہر کرتاہے۔ بارش کے قطرے ایسے حیات بخش ہوتے ہیں کہ جن کی وجہ کائنات کی ہر شئے کو حیات ملتی ہے، کرۂ ارض کے اکثر حصے سبز پوش ہوجاتے ہیں، یہ سرسبزی وشادابی دلوں کو موہ لینے کے ساتھ سارے جانداروں کی غذائی ضرورتوں کے پورے ہونے کا انتظام ہوتا ہے۔ ارشاد باری ہے: ’’وہی تو ہے جو اپنی رحمت (بارش) سے پہلے خوشخبری دینے کے لئے ہواؤں کو بھیجتا ہے اور ہم آسمان سے پاکیزہ پانی اتارتے ہیں تاکہ ہم مردہ شہروں کو پانی سے زندگی بخشیں اور اپنی مخلوق سے ا نگنت مویشیوں اور انسانوں کو پانی سے سیراب کریں‘‘۔ (الفرقان؍۴۸۔۴۹)

پانی کی ایک صفت یہاں ’’طہور‘‘ بتائی گئی ہے، یہ مبالغہ کا صیغہ ہے، اس سے مراد ایسی چیز ہے جس سے پاکیزگی حاصل کی جاسکتی ہے۔ پانی کی شان یہ ہے کہ وہ خود بھی پاک ہے، اس لئے اس کو طاہر کہتے ہیں اور اس پانی میں دوسروں کو پاک کرنے کی صلاحیت بھی رکھی گئی ہے اس لئے اس کو مطہر بھی کہتے ہیں۔ اس اہم تریں نعمت کو کائنات ارضی میں پھیلانے کے لئے حق سبحانہ نے اپنی قدرت سے وسیع تر انتظامات کررکھے ہیں، آسمان سے بارش برستی ہے، کبھی برف اور اولے بھی برستے ہیں۔ قدرتی انتظامات کے تحت پہاڑوں کی شکل میں برف بنتے ہیںپھر وہ پگھل کر زمین کا سینہ چیر تے ہوئے حسب ضرورت زمین کی طرف قدرتی نظم کے ذریعہ بہتی ندی و دریا کی صورت میں پہنچتے ہیںاور کبھی پانی کے چشمے ابلتے ہیںاور کہیں کنویں بناکر یا پھر بورویلس کے ذریعہ زمین کے جگر سے پانی حاصل کیا جاتا ہے۔
ایک اخباری اطلاع ہے کہ اس وقت زیر زمین پانی کی سطح انتہائی گراوٹ کا شکار ہوگئی ہے، جس کی وجہ کنویں اور بہت سے بورویلس خشک ہوچکے ہیں۔ اس شہر سے متصل نئی آبادیاں جو تخمینی (۸۰۰) رہائشی بستیوں پر مشتمل ہیں، پانی کی شدیدقلت کا شکار ہیں۔ زیر زمین پانی نہ ہونے کی وجہ خانگی و سرکاری بورویلس ناکارہ ہوچکے ہیں، حیدرآباد کے دو بڑے آبی ذخائر (عثمان ساگر، حمایت ساگر) دم توڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اللہ سبحانہ کا ارشاد ہے: ’’اے نبی ﷺ آپ فرما دیجئے! کہ اچھا یہ تو بتاؤ اگر تمہارا پانی زمین کی گہرائیوں میں اتر جائے تو پھر کون ہے جو تمہارے لئے صاف ستھرا پانی لے آئے‘‘۔ (الملک؍۳۰)

ہر شئے کا خالق و مالک اللہ سبحانہ ہے اسی طرح پانی کا بھی وہی خالق و مالک ہے اور وہی ساری دنیا میں پانی کی ضرورتوں کو پوری فرماتا ہے۔ سائنسی ایجادات اور نت نئی تحقیقات سب کی سب قدرت کے آگے فیل ہوجاتی ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی کتنی بڑی مہربانی ہے کہ اس کی نافرمانیوں کے باوجود اس نے پانی مہیا فرمانے کا انتظام کر رکھا ہے۔ اس آیت پاک میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ پانی جس کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں وہ آسانی کے ساتھ سب تک پہنچ رہا ہے۔ اگر وہ ہمارے دسترس سے باہر ہوجائے تو پھر وہ کونسی طاقت ہے جو پانی مہیا کرے۔ کس قدر ظلم کی بات ہے کہ پانی جیسی عظیم نعمت مہیا کرنے والے خالق و مالک کو بھلا دیا جائے، جس نے ہمیں اس دنیا میں وجود بخشا، بن مانگے حیات و زندگی کے اسباب مہیا کیے، ایسے رحیم و کریم پروردگار کو چھوڑ کر انسان باطل قوتوں کے آگے سر جھکائے اور جذبات عبودیت کو بے جان و بے اختیار چیزوں سے وابستہ کرلے، یہ کس قدر حق سے انحراف اور ناشکری ہے۔ ظاہر ہے ایمان لاکر اور اس کے تقاضوں پورا کرتے ہوئے ہی حقیقی معنی میں اس کا شکر ادا کیا جاسکتا ہے۔