پانچ عالمی طاقتوں کا ایرانی تیل اور گیس کی برآمدگی پر تعاون جاری رکھنے کا اعلان

ویانا۔ 7 جولائی ۔(سیاست ڈاٹ کام) برطانیہ، فرانس، جرمنی سمیت روس اور چین نے ایران کو یقین دہانی کرائی ہے کہ امریکہ کی جانب سے ایران نیوکلیئر معاہدے 2015 ء سے دستبرداری کے باوجود تہران کو معاہدے کے تحت اقتصادی فوائد حاصل رہیں گے ۔ اس حوالے سے چاروں عالمی طاقتوں نے عزم کا اظہار کیا کہ معاہدہ کی رو سے ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات سمیت ایرانی تیل اور گیس کی برآمدگی سمیت دیگر توانائی سے متعلق امور پر بھرپور تعاون جاری رہے گا۔ واضح رہے کہ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے اپنے اتحادی ممالک کی تجاویز اور مشوروں کو رد کرتے ہوئے 8 مئی کو ایران کے ساتھ عالمی نیوکلیئر معاہدہ منسوخ کردیا تھا جو سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور حکومت میں 2015 ء میں دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان طے پایا تھا، جس میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکہ شامل تھے ۔ایرانی نیوز ایجنسی آئی آر این اے نے 4 جولائی کو کہا تھا کہ تہران اور ماسکو کی جانب سے بیان سامنے آیا ہے کہ ایران اور دیگر 5 ممالک کے وزراخارجہ آسٹریا میں متنازع جوہری معاہدے 2015 ء کے حوالے سے ملاقات کریں گے۔

اس حوالے سے بتایا گیا تھا کہ رواں برس امریکہ کی جانب سے جوہری معاہدہ منسوخ ہونے کے بعد یہ پہلی ملاقات ہو گی جس میں برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور روس کے سفیر آسٹریا کے شہر ویانامیں ایرانی وزیرخارجہ محمد جاوید طریف سے تبادلہ خیال کریں گے ۔دوسری جانب ویانا میں ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا کہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے نیوکلیئر معاہدے سے دستبردار ہونے کے 2 ماہ بعد دیگر عالمی طاقتوں نے واشنگٹن کا دباؤ ’برداشت‘ کیا جو یقیناً قابل ستائش بات ہے ۔انھوں نے واضح کیا کہ ’’تین اتحادیوں سمیت تمام شرکاء نے سیاسی عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ امریکہ کے دباؤ کو برداشت کریں گے اور معاہدے کو روبہ عمل بنائیں گے‘‘۔ دوسری جانب ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکہ کی جانب سے ایرانی تیل کی ترسیل روکنے کی کوشش کو ’ناکام خیال‘قرار دیا اور اس اقدام کو امریکی سامراجی پالیسی قرار دیتے ہوئے عالمی قوانین کے منافی کہا تھا ۔اس حوالے سے وزیرخارجہ نے مزید بتایا کہ 11 نکاتی مشترکہ مقاصد پر آمادگی کا اظہار کیاگیا۔مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ ظریف سمیت دیگر ممالک کے سفیروں نے معاہدے سے متعلق عزم کا اظہار کیا کہ ایران کے لیے ’’اقتصادی حصہ‘‘جاری کیا جائے گا۔