پالی ٹیکنیک و انجینئرنگ کورسیس میں داخلہ کے دوران 2 لاکھ سے کم انکم سرٹیفیکٹ قبول کرنا ضروری

داخلہ کونسلنگ میں حکام کے عدم قبولیت پر طلبہ و اولیائے طلبہ پریشان حال ، سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل کا ردعمل
حیدرآباد ۔5۔ جولائی (سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت نے اقلیتوں کیلئے تعلیمی اداروں میں داخلے ، فیس باز ادائیگی اور دیگر اسکیمات سے استفادہ کیلئے آمدنی کی جو حد مقرر کی ہے، انجنیئرنگ اور پالی ٹیکنکس میں داخلوں کے وقت اقلیتوں کو دشواریوں کا سامنا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ کونسلنگ مراکز پر طلباء کی جانب سے پیش کردہ دو لاکھ روپئے تک کے انکم سرٹیفکٹ کو قبول کرنے سے انکار کیا جارہا ہے اور ایک لاکھ سے کم آمدنی کا سرٹیفکٹ پیش کرنے پر اصرار کیا جارہا ہے ۔ تلنگانہ میں انجنیئرنگ میں داخلوں کی دوسرے مرحلہ کی کونسلنگ جاری ہے جبکہ پالی سیٹ کی پہلے مرحلہ کی کونسلنگ مکمل ہوچکی۔ اولیائے طلباء نے شکایت کی ہے کہ کونسلنگ مراکز پر جب طلبہ فیس باز ادائیگی اسکیم کیلئے درخواست داخل کر رہے ہیں تو حکام انکم سرٹیفکٹ قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ بیشتر طلبہ نے حکومت کے احکامات کے مطابق دو لاکھ سے کم سالانہ انکم کے مطابق سرٹیفکٹ حاصل کیا ہے لیکن داخلوں کے وقت انہیں ایک لاکھ سے کم کا سرٹیفکٹ پیش کرنے پر زور دیا جارہا ہے جو طلبہ کیلئے آسان نہیں۔ ایسے میں طلبہ اگر فیس باز ادائیگی کے بغیر ہی داخلہ حاصل کرتے ہیں تو انہیں کورس کی تکمیل تک مکمل فیس خود کو ادا کرنا ہوگا۔ اس طرح اقلیتی طلبہ کا بھاری نقصان ہورہا ہے اور حکومت نے طلبہ کی سہولت کیلئے جو اسکیم شروع کی ہے، اس سے اقلیتی طلبہ استفادہ سے محروم ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کونسلنگ سنٹرس کے عہدیدار دعویٰ کر رہے ہیں کہ انہیں حکومت سے احکامات موصول ہوئے کہ ایک لاکھ سے کم آمدنی کا سرٹیفکٹ ہی قبول کیا جائے۔ حکومت نے 30 اپریل 2015 ء کو جی او آر ٹی 64 جاری کیا تھا جس کے تحت دیہی علاقوں میں آمدنی کی حد سالانہ دیڑھ لاکھ اور شہری علاقوں میں دو لاکھ روپئے کی حد مقرر کی گئی۔ یہ حد اقلیتوں کی 7 مختلف اسکیمات پر عمل آوری کیلئے قابل عمل ہوگی۔ عہدیداروں کی جانب سے انکم سرٹیفکٹ قبول نہ کئے جانے سے منڈل دفاتر میں کرپشن کا بازار گرم ہوچکا ہے اور زائد رقم حاصل کرتے ہوئے ایک لاکھ سے کم کا سرٹیفکٹ جاری کیا جارہا ہے ۔ ایسے اولیائے طلبہ جو زائد رقم کی ادائیگی سے قاصر ہے، انہیں انکم سرٹیفکٹ کے حصول میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ اسی دوران سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل نے واضح کیا کہ کونسلنگ مراکز پر حکومت کے جی او آر ٹی 64 کے مطابق دو لاکھ سے کم کا انکم سرٹیفکٹ قبول کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کونسلنگ سنٹرس پر جی او پر عمل آوری کے سلسلہ میں متعلقہ کورسس کے کنوینرس کو مکتوب روانہ کیا جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ بینکوں سے مربوط سبسیڈی ، شادی مبارک ، عیسائی امیدواروں کیلئے اسکل ڈیولپمنٹ ٹریننگ ، اقلیتی فینانس کارپوریشن سے اسکل ڈیولپمنٹ ٹریننگ ، فیس باز ادائیگی ، اسکالرشپس اور سیول سرویسز کیلئے کوچنگ کے سلسلہ میں آمدنی کی حد یکساں طور پر مقرر کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ متحدہ آندھراپردیش میں آمدنی کی یہ حد دیہی علاقوں میں سالانہ 60,000 اور شہری علاقوں میں 75,000 روپئے تھی۔ تلنگانہ ریاست کے قیام کے بعد زائد تعداد میں اقلیتی طبقہ کو اسکیمات سے مستفید کرنے کیلئے حکومت نے سالانہ آمدنی کی حد میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر کسی کونسلنگ سنٹر پر انکم سرٹیفکٹ قبول نہ کیا جائے تو طلبہ ان سے برائے راست رجوع ہوسکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس مسئلہ پر سنجیدگی سے کارروائی کرے گی اور عہدیداروں کو بہرصورت جی او 64 پر عمل آوری کرنی ہوگی۔ بتایا جاتا ہے کہ مانصاحب ٹینک ، جے این ٹی یو ، رامنتا پور اور قلی قطب شاہ میں موجود کونسلنگ سنٹرس میں اقلیتی طلبہ کو مختلف مسائل کا سامنا ہے ۔