پارٹی کو نہیں ، امیدوار کو دیکھئے

ہر سیاسی جماعت مسلمانوں کے استحصال میں مصروف، قائدین کو ملی مفادات سے کہیں زیادہ ذاتی مفادات عزیز

حیدرآباد 29 جنوری (سیاست نیوز) جی ایچ ایم سی انتخابات میں ہر سیاسی جماعت رائے دہندوں کو رجھانے انھیں لبھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہی ہے۔ ہر پارٹی کا یہی دعویٰ ہے کہ عوام کی حقیقی خدمت گذار وہی ہے۔ اس کے ہی امیدوار عوامی مسائل حل کرسکتے ہیں۔ جبکہ برسوں سے اسی جماعت نے رائے دہندوں کو ترقی کے ثمرات عطا کئے۔ شہر کی ترقی اور عوام کی خوشحالی اُسی پارٹی کی مرہون منت ہے۔ جی ایچ ایم سی انتخابات میں سیاسی جماعتیں جن رائے دہندوں پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے وہ مسلم رائے دہندے ہیں۔ کانگریس، ٹی آر ایس جہاں خود کو مسلمانوں کی سب سے بڑی ہمدرد جماعتوں کی حیثیت سے پیش کررہی ہیں وہیں مجلس خود کو مسلم کاز کی چمپئن قرار دیتے نہیں تھکتی۔ بی جے پی بھی مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کا دم بھرنے لگی ہے لیکن حقیقت میں دیکھا جائے تو کسی بھی سیاسی جماعت کو مسلمانوں سے اور ان کے مسائل سے کوئی ہمدردی نہیں۔ شہر میں زائداز 20 برسوں سے آٹو چلانے والے داود پاشاہ کے مطابق کانگریس ہو یا مسلمانوں کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی کوئی جماعت کسی کو بھی غریب مسلم رائے دہندوں سے کوئی ہمدردی نہیں۔ شہر کے مضافاتی علاقوں میں گداگروں کی بستیاں بسائی گئیں لیکن پرانا شہر میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان خاندان آباد ہیں جو کرائے کے باڑوں اور مکانات میں مقیم ہیں۔ انھیں ذاتی مکانات فراہم کرنے کانگریس ۔ مجلس کسی نے بھی کوئی اقدامات نہیں کئے بلکہ انتخابات کے دوران ان کا جی بھر کر استحصال کیا گیا۔ کبھی مذہب کے نام پر تو کبھی علاقہ اور ذات پات کے نام پر ان کے ووٹ بٹورلئے گئے۔ شہر کے ایک ماہر تعلیم کے خیال میں ایسا صرف حیدرآباد یا پرانا شہر کے مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ تمام ہندوستانی مسلمانوں کو سیاسی جماعتیں جہاں وہ مسلم سیاسی جماعتیں ہی کیوں نہ ہوں ایک کھلونے کی طرح استعمال کرتی ہیں اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے ساتھ ہی انھیں مسلمانوں کی معاشی پسماندگی دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی تعلیمی پستی کا وہ مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان کی نظروں سے مسلمانوں میں پائی جانے والی بے روزگاری بھی اوجھل ہوجاتی ہے۔ کانگریس اور مجلس اس کے بعد سے مسلمانوں کی حالت زار میں تبدیلی کے دعوے کررہی ہے لیکن آج عوام کو اندازہ ہوگیا ہے کہ کسی جماعت کو مسلمانوں کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ انھیں مسلمانوں کے ووٹوں سے دلچسپی ہے۔ ایک خاتون رائے دہندہ کے مطابق مسلمانوں نے ہمیشہ پرانا شہر میں مجلس کا ساتھ دیا۔ پارلیمنٹ و اسمبلی انتخابات سے لے کر بلدی انتخابات میں اس کے امیدواروں کو کامیابی دلائی لیکن پرانا شہر میں سب سے زیادہ بے روزگاری سب سے زیادہ معاشی و تعلیمی پسماندگی پائی جاتی ہے۔ دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد میں سب سے زیادہ سلم (گندہ بستیاں) پرانا شہر میں ہی ہیں۔ بچہ مزدوری بھی شہر کے اسی حصہ میں پائی جاتی ہے۔ خاتون کے ان خیالات کی کوئی تردید نہیں کرسکتا۔ دیکھا گیا تو 9.5 ملین آبادی کے حامل تاریخی شہر حیدرآباد میں تقریباً 20 لاکھ لوگ سلم بستیوں میں رہتے ہیں۔ ان میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ 1500 کے قریب سلم بستیاں ہیں، ان میں سے بے شمار پرانا شہر میں ہیں۔ ایسے میں بلدی انتخابات مسلم رائے دہندوں کیلئے ان کا استحصال کرنے والی سیاسی جماعتوں سے انتقام لینے کا بہترین موقع ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ انتقام کیسا لیا جائے؟ اس سوال کا جواب انجینئرنگ کے ایک مسلم طالب علم کچھ اس طرح دیتا ہے ’’مسلم رائے دہندوں کو چاہئے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کو نہ دیکھے بلکہ امیدواروں کی اچھی طرح جانچ پڑتال کریں جس طرح برتن کو ٹھونک بجاکر خریدا جاتا ہے اسی طرح امیدوار کی تعلیم، اس کے کردار، اس کے پس منظر کا جائزہ، ساتھ ہی یہ بھی دیکھیں کہ اس میں عوامی خدمت کا جذبہ موجود ہے یا نہیں؟ وہ صرف گفتار کا غازی ہے یا کردار کا۔ کہیں وہ اپنے ذاتی مفادات کا تو غلام نہیں؟ امیدوار کے بارے میں تمام باتیں جانچ لینے کے بعد جو امیدوار آپ کو پسند آئے اس کے حق میں ووٹ دیجئے تب ہی آپ کی، آپ کے حلقہ اور شہر کی ترقی ہوگی۔