پارلیمنٹ کا سنٹرل ہال

پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال سے اب تک کئی ممتاز شخصیتوں نے خطاب کیا ہے، اب ہندوستانی سیاست میں سب سے متنازعہ شخصیت سمجھے جانے والے نریندر مودی نے خطاب کرتے ہوئے اپنی وزارت عظمیٰ کے عزائم اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کی جانب توجہ دیتے ہوئے خود کو ایک جمہوری ملک کا ادنیٰ ورکر قرار دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں وزیراعظم کی حیثیت سے حلف لینے والے نریندر مودی نے پارلیمنٹ کے زینوں کو طئے کرنے سے قبل ان پر پیشانی ٹیکی اور اس منزل تک پہونچنے کے لئے اپنی انتھک محنت کا ثمر حاصل ہوتا دیکھ کر آنسو بھی ٹپکائے ۔ نریندر مودی نے اپنے خطاب میں سنٹرل ہال کے حاضرین کے ساتھ سارے ملک کو ملے جلے پیام کے ذریعہ تجسس بھری باتیں بھی کیں اور کچھ مزاح کا پہلو بھی نکالا۔ انہوں نے اپنے پیشرو وزیراعظم منموہن سنگھ کے برعکس کم سخنی کے مظاہرہ کے بجائے برجستہ کلامی کا بھی مظاہرہ کیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ ایک کامیاب سیاست داں ہیں جو تنقیدوں اور خامیوں کے درمیان سے گذر کر اپنی منزل تک پہونچ گئے ہیں۔ 1950ء میں شمالی گجرات کے ضلع مہانہ کے ایک چھوٹے گاؤں ڈونگر میں پیدا ہونے والے نریندر مودی نے ریلوے پلیٹ فارم پر چائے فروخت کرکے اپنی کمسنی میں زندگی بسر کی تھی۔ سنگھ پریوار سے وابستگی کے بعد کٹر ہندو بن کر زندگی گذاری۔ 1987ء میں بی جے پی کے سرگرم کارکن بن جانا ان کی سیاسی سفر کی ابتداء تھی۔ ہندوتوا ذہنیت کو فروغ دینا ان کا کلیدی مقصد ہے۔ اسرائیل اور اسلام دشمن طاقتوں سے دوستی رکھنا، ان کا سیاسی ایجنڈہ ہے۔ ان کے ناقدین اب تک یہ کہتے آرہے تھے کہ شدید متعصب شخص اگر دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت والے ملک کا وزیراعظم بن جائے تو حالات ناقابل بیان ہوں گے۔ پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال میں جمع شخصیتوں نے بھی ان کی تقریر کی سماعت کے ساتھ ان کے ارادوں کو بھانپ لیا ہوگا۔

مسلمانوں سے دشمنی اور ان کے خون سے رنگے ہاتھوں کے الزامات کے ساتھ پے درپے سیاسی فتوحات کی لہر میں اُڑ کر مرکز تک پہونچنے کے بعد انہوں نے محسوس کیا ہے کہ وہ اب ایک کثیر آبادی والے ملک کے وزیراعظم ہونے والے ہیں تو ان میں کچھ ذمہ دارانہ خوبیاں اور اپنے فرائض کے تعلق سے شریفانہ احساس پیدا کرنا ضروری ہے۔ اس لئے انہوں نے بار بار خود کو ایک پابند ڈسپلین سپاہی قرار دیا ہے۔ انہوں نے مجاہدین آزادی اور اس ملک کے دستور سازوں کو سلیوٹ بھی کیا۔ ان کو یہ احساس ہونے لگا کہ وہ جمہوریت کی طاقت کے بل پر سنٹرل ہال تک پہونچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب اس جمہوریت اور دستور کی پاسداری ان کا اولین فریضہ بن گیا ہے۔ مودی نے بھی یہ اعتراف کیا کہ بلاشبہ اس ملک کے دستور کی طاقت کے عرض ہی وہ ایک پسماندہ اور غریب طبقہ سے تعلق رکھنے کے باوجود ملک کے بڑے ادارہ تک پہونچ گئے ہیں۔ وہ ایک ایسی حکومت کی قیادت کرنے کا عزم ظاہر کررہے ہیں جو غریب کے بارے میں سوچے، غریب کی بات سنے، اور غریب کے لئے کام کرے لہذا ان کی نئی حکومت ملک کے غریبوں کے لئے وقف ہوگی۔ لاکھوں نوجوانوں کے لئے وقف ہوگی۔ان ماوؤں اور بیٹیوں کے لئے وقف ہوگی جو اپنی عزت اور عصمت کے لئے جدوجہد کررہی ہیں، دیہی عوام، کسانوں، دلتوں اور پچھڑے طبقات کے لئے ان کی حکومت کے کئی منصوبے ہیں۔

ان تمام کو ایک خوشحال زندگی دینا میری حکومت کی ذمہ داری ہوگی۔ ہندوستانی عوام نے انہیں بھاری اکثریت سے منتخب کیا ہے تو یہ مجموعی رجحان کا مظہر ہے جس میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو سامنے رکھ کر ووٹ دیئے گئے ہیں۔ اگر نریندر مودی نے اپنی پارٹی کی جانب سے کسی مسلمان کو ٹکٹ نہیں دیا ہے تو کیا ہوا۔ ہندوستان کے مجبور و لاچار لاکھوں مسلمانوں نے بھی انہیں ووٹ دیا ہے۔ انہیں قومی سطح پر ہر طبقہ کے درمیان باعزت مقام حاصل کرتے ہوئے عالمی سطح پر ایک جمہوری ملک کے سیکولر پسند وزیراعظم ہونے کا ثبوت دینے کی بڑی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔ جس جمہوریت اور دستور ہند کے طویل میں انہیں وزارتِ عظمیٰ اور اقتدار حاصل ہوا، اس جمہوریت اور دستور کے تقدس کو برقرار رکھتے ہوئے تمام ہندوستانیوں کے ساتھ منصفانہ سلوک روا رکھنے ہیں تو ان کی پارلیمنٹ کے سنٹرل ہال کی تقریر کو ایک تعصب پسند متنازعہ لیڈر کی نہیں جمہوریت پسند اور دستور نواز قائد کی تقریر سمجھا جائے گا۔ اگر وہ اپنے ظاہر ایجنڈے سے ہٹ کر خفیہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہوں گے تو اس ملک کی جمہوریت ایک نئے انقلاب کی راہ تلاش کرے گی۔