پارلیمنٹ میں متحدہ آندھرا پردیش کی تقسیم پر تلگودیشم اور ٹی آر ایس کے درمیان تکرار

ریاست کی غیر قانونی تقسیم: رام موہن نائیڈو کا الزام۔ چندرابابو کے مکتوب رضامندی پر تقسیم: جتیندر ریڈی کا ادعا
حیدرآباد /26 نومبر (سیاست نیوز) لوک سبھا میں ریاست کی تقسیم پر آندھرا پردیش کے رکن پارلیمنٹ رام موہن نائیڈو اور ٹی آر ایس کے رکن پارلیمنٹ جتیندر ریڈی کے درمیان تیکھی بحث ہو گئی۔ دستور کے مباحث میں حصہ لیتے ہوئے تلگودیشم رکن پارلیمنٹ آنجہانی ایرم نائیڈو کے فرزند رام موہن ریڈی نے کہا کہ سابق یو پی اے حکومت نے دستور اور ضابطہ اخلاق کو بالائے طاق رکھ کر آندھرا پردیش عوام کی رائے حاصل کئے بغیر اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کیا اور آندھرا پردیش کو تقسیم کرتے ہوئے علحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دی۔ انھوں نے کہا کہ تقسیم سے قبل آندھرا پردیش کی ترقی و خوشحالی کے لئے کوئی سائنٹفک طریقہ نہیں اپنایا گیا، جس کی وجہ سے ریاست کئی مسائل سے دوچار ہے، تاہم این ڈی اے حکومت بالخصوص وزیر اعظم نریندر مودی آندھرا پردیش کی ترقی میں تعاون کرکے دستوری فرائض کی تکمیل کر رہے ہیں۔ ان کے اس ریمارکس پر تلنگانہ کے رکن پارلیمنٹ جتیندر ریڈی نے اعتراض کیا اور کہا کہ صدر تلگودیشم و چیف منسٹر آندھرا پردیش چندرا بابو نائیڈو نے ریاست کی تقسیم اور علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو مکتوب پیش کیا تھا اور تمام جماعتوں میں اتفاق رائے کے بعد ہی یو پی اے حکومت نے پارلیمنٹ میں قانون سازی کے بعد علحدہ ریاست تشکیل دی، لہذا غیر قانونی طورپر ریاست کی تقسیم کا الزام جمہوریت کی توہین کے مترادف ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ علحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کو غیر دستوری قرار دینا سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔ انھوں نے کہا کہ 60 سالہ آندھرائی حکمرانی میں علاقہ تلنگانہ کے ساتھ تمام شعبوں میں ناانصافی ہوئی ہے۔ انھوں نے ورنگل لوک سبھا ضمنی چناؤ کی کامیابی کو حکومت کی کار کردگی پر عوامی بھروسہ کا ثبوت قرار دیتے ہوئے کہا کہ تلگودیشم۔ بی جے پی اتحاد کے باوجود ٹی آر ایس امیدوار کو بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل ہوئی۔