پارلیمنٹ مانسون سیشن

کھنچے کھنچے سے وہ رہتے ہیں آجکل ہم سے
زباں سے پھر بھی انہیں بدگماں نہیں کہتے
پارلیمنٹ مانسون سیشن
پارلیمنٹ کا مانسون سیشن جمعہ کو اختتام پذیر ہوا۔ سال 2000 ء سے پہلی مرتبہ پارلیمنٹ کی اس کارروائی کو کارآمد قرار دیا جارہا ہے۔ مانسون سیشن میں 18 روز کارروائی ہوئی ان میں سے ایک دن تہوار کے باعث کارروائی منسوخ کی گئی۔ دوسری مرتبہ ڈی ایم کے سربراہ ایم کروناندھی کے انتقال پر ایوان میں خراج پیش کرنے کے بعد کارروائی کو ملتوی کیا گیا۔ 16 ویں لوک سبھا میں پہلی مرتبہ نریندر مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی۔ یہ پارلیمنٹ میں پیش ہونے والی 27 ویں تحریک عدم اعتماد تھی جس پر 51 ارکان پارلیمنٹ نے 12 گھنٹوں تک بحث کی۔ تاہم اپوزیشن کی اس تحریک کو بُری طرح شکست ہوگئی۔ راجیہ سبھا کے نائب صدرنشین کے لئے بھی انتخاب ہوا جس میں ہری ونش نارائن سنگھ کو منتخب کیا گیا۔ اس لحاظ سے پارلیمنٹ کے اختتام پذیر مانسون سیشن کو سب سے زیادہ کارآمد قرار دیا گیا لیکن راجیہ سبھا میں حکومت کو اکثریت حاصل نہیں ہے جہاں 3 طلاق بل کو منظور نہیں کیا جاسکا۔ البتہ اس سیشن میں 20 بلوں کو متعارف کروایا گیا اور 11 کو لوک سبھا میں منظوری دی گئی۔ پارلیمنٹ کی کارروائی کا سب سے اہم موقع یہ تھا کہ اس میں سب سے زیادہ خانگی رکن کے بل 999 پیش کئے گئے۔ اگرچیکہ 1000 بلوں کو متعارف کیا گیا لیکن صرف 10 پر بحث ہوسکی۔ وزیراعظم مودی کی زیرقیادت بی جے پی حکومت نے سوشیل میڈیا کے ذریعہ پھیلنے والے تشدد کا خاص نوٹ نہیں لیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس سیشن کے دوران اپوزیشن نے سوشیل میڈیا کے ذریعہ افواہیں پھیلاکر ہجومی تشدد کے واقعات کی شدید مذمت کی جاتی اور اس سلسلہ میں سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں سخت قانون لایا جانا چاہئے تھا۔ آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کے قطعی مسودہ پر بھی شدید ہنگامہ ہوا مگر حکومت نے کوئی دلچسپی ہی نہیں دکھائی۔ آندھراپردیش ری آرگنائزیشن ایکٹ 2014 پر بھی عدم عمل آوری کا مسئلہ اُٹھایا گیا لیکن اسے بھی نظرانداز کردیا گیا۔ آندھراپردیش کو علیحدہ خصوصی درجہ دینے کا تیقن دیئے جانے کے 4 سال بعد بھی یہ مسئلہ جوں کا توں ہی رہا۔ آندھراپردیش سے تعلق رکھنے والے تلگودیشم ارکان نے سیشن کے دوران اپنے مطالبات کی جانب توجہ دلانے کی کوشش کی۔ اس سیشن کے دوران سیاسی پارٹیوں خاص کر این ڈی اے کی حلیف پارٹیوں اور اپوزیشن اتحاد کی طاقت آزمائی کے درمیان تلنگانہ کی ٹی آر ایس کے موقف سے سارا ملک واقف ہوگیا۔ سیکولر ووٹوں سے منتخب ہوکر اقتدار حاصل کرنے والی ٹی آر ایس پارٹی اور اس کی قیادت نے مرکز میں فرقہ پرستوں کا ساتھ دیا ہے۔ مودی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے لئے رائے دہی سے ٹی آر ایس کی غیر حاضری اور راجیہ سبھا کے نائب صدرنشین کے انتخاب کے لئے بھی ٹی آر ایس کا موافق مودی حکومت موقف افسوسناک طور پر آشکار ہوا ہے۔ اپوزیشن نے اس سیشن کے لئے کافی تیاری کی تھی لیکن وہ مودی حکومت کو سبق سکھانے میں ناکام رہی۔ صدر کانگریس راہول گاندھی نے وزیراعظم مودی کو گلے لگاکر ملک کے عوام کے حق میں کوئی تیر نہیں مارا۔ نہ ہی ان کے اس خیرسگالی جذبہ کا کانگریس کو بھی فائدہ ہوا۔ ایوان میں وزیراعظم پر الزام عائد کرتے ہوئے کہ انھوں نے ملک کے کسانوں کے مسائل کو فراموش کردیا ہے اور وزیر دفاع نرملا سیتارامن پر بھی الزام عائد کیاکہ رافیل معاہدہ کے تعلق سے انھوں نے قوم سے جھوٹ کہا تھا۔ راہول گاندھی نے ایک اپوزیشن پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے ایوان میں موضوعاتی بحث کی ہے لیکن وہ حکومت کی خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے انھیں درست کروانے میں ناکام رہے۔ انھوں نے اتنا کہہ کر اپنی ذمہ داری پوری کرلی کہ وزیراعظم میری آنکھوں سے آنکھیں ملاکر نہیں دیکھ پارہے ہیں۔ اس پر وزیراعظم نے اپنی آنکھوں کو کشادہ کرکے دکھایا اور راہول کے دعوے کو مسترد کردیا۔ پارلیمنٹ کے اندر حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کو آنکھیں دکھاتے رہیں تو ملک کے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے حکومت اور اپوزیشن نے پارلیمنٹ سیشن کے اختتام کے بعد اپنے اپنے گھر کی راہ لے لی۔ مسائل جوں کا توں رہ گئے۔ سوشیل میڈیا، ہجومی تشدد اور آسام کے این آر سی کے ذریعہ 40 لاکھ ہندوستانیوں کی شہریت کو داؤ پر لگایا گیا۔ پارلیمنٹ ارکان کا یہ فریضہ ہوتا ہے کہ وہ عوام کے حق میں اہم کام انجام دیں۔ حکومت اپنے دعوؤں کو پورا کرکے دکھائے اگر ایسا نہ ہو تو اپوزیشن کی جانب سے یہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ حکومت کو اس کے وعدے یاد دلاکر ان پر عمل کرنے کے لئے دباؤ ڈالے۔ ایوان کے اندر جو عہد کیا جاتا ہے اس کا احترام کرتے ہوئے انھیں پورا کرنا بڑی ذمہ داری ہوتی ہے۔
بیالٹ پیپر کا مطالبہ اور الیکشن کمیشن
ہندوستانی رائے دہندوں کو عصری ٹیکنالوجی سے استفادہ کا موقع دیتے ہوئے الیکشن کمیشن نے گزشتہ چند برس سے ملک کے عام یا اسمبلی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال شروع کیا تھا لیکن سیاسی پارٹیوں کو ان مشینوں پر شکوک و شبہات ہیں۔ خاص کر اُن پارٹیوں کو جو اقتدار سے محروم ہیں۔ حال ہی میں پارلیمنٹ مانسون سیشن کے دوران اپوزیشن پارٹیوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ایک ہفتہ کے اندر الیکشن کمیشن سے رجوع ہوکر ملک میں بیالٹ پیپر کے احیاء کے لئے زور دیں گے۔ اپوزیشن کو شکایت ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاکر انتخابی نتائج میں دھاندلیاں کی جارہی ہیں۔ 2014 ء کے عام انتخابات اور اس کے بعد کے ریاستی اسمبلی انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج میں سہولتیں فراہم کی تھیں۔ اس عمل میں شفافیت اور منصفانہ کے فقدان کا شبہ پیدا کرتے ہوئے اپوزیشن ملک کے اس انتخابی عمل میں ماضی کی طرح بیالٹ پیپر کے استعمال پر زور دیا ہے۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آیا اس کا یہ مطالبہ الیکشن کمیشن کی دیانتداری پر سوالیہ نشان نہیں لگاتا۔ دستوری دفعات اور ٹیکنالوجی کو یکسر نظرانداز کردینا بھی ایک غلط روش قرار پائے گی۔ الیکشن کمیشن نے متواتر زور دے کر کہا ہے کہ ای وی ایمس مکمل محفوظ اور قابل بھروسہ ہیں۔ کمیشن نے یہ بھی چیلنج کیا ہے کہ ان الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو ہیاک کرکے دکھایا جائے۔ ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ایسے میں اپوزیشن پارٹیوں کو اپنے موقف پر نظرثانی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مسئلہ پر کل جماعتی اجلاس میں صلاح و مشورہ کیا جانا بھی وقت کا تقاضہ ہے۔