قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
پارلیمنٹ سیشن اور مسائل
پارلیمنٹ کی کارروائی کو کھادی پوش سایوں سے بچاکر چلانا آسان کام نہیں۔ زعفرانی سیاسی سازش سے نکلنے والا بڑا لیڈر انتخابی مہم کو کئی وعدوں کے ساتھ چلاکر اقتدار حاصل کرلیا ہے تو اپوزیشن کو ان وعدوں کی تکمیل کا انتظار بھی ہے۔ پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن کا آغاز ہونے کے بعد ایوان میں یہی سوال اٹھائے جارہے ہیں کہ آخر مودی حکومت نے اپنے انتخابی وعدے پورے کیوں نہیں کئے۔ سب سے اہم وعدہ کالے دھن کو واپس لانے کا تھا۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ این ڈی اے حکومت نے کالے دھن کے رکھوالوں سے سودے بازی کی اور اپنے وعدہ سے کمپرومائز کیا لیکن کیا اپوزیشن کے احتجاج کے پنجے سے مودی حکومت اپنی اٹکی ہوئی سانسیں چھوڑا سکے گی کیوں کہ اپوزیشن نے سیشن کے لئے پوری تیاری کرلی ہے۔ اس کے ایجنڈہ میں کالے دھن کا مسئلہ، رشوت ستانی اور انشورنس بل کے بشمول کئی دیگر بلس کو روکنا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنے ایجنڈہ کے ذریعہ مودی حکومت کو کسی تاریک کوٹھڑی کے سامنے درخت پر سانپ لٹکاکر خوفزدہ کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔ اپوزیشن کے اس طرح کے احتجاج سے مودی حکومت کی رسی کا بل نہیں جائے گا۔ اس نے بھی سیشن کو اپنی مرضی اور طاقت کے بل پر چلانے کا عہد کرلیا ہے۔ اپوزیشن نے عوام کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ حکومت نے کالے دھن کو لانے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ جیسے ہی مودی حکومت نے اقتدار سنبھالا، کالے دھن کا پتہ چلانے کے لئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی۔ اس طرح کی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کو اس سے پہلے کسی بھی نے تشکیل نہیں دیا تھا۔ کالے دھن کو رکھنے والوں کی مبینہ فہرست بھی پہلے ہی خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے حوالے کی جاچکی ہے۔ اس کے باوجود کالا دھن یوں ہی بیرونی بینکوں میں پڑا سڑ رہا ہے۔ وزیراعظم امیدوار کی حیثیت سے انتخابی مقابلہ کرتے وقت نریندر مودی نے وعدہ کیا تھا کہ 100 دن میں کالا دھن واپس لایا جائے گا۔ اس لئے اپوزیشن کو ایک اچھا موضوع مل گیا ہے کہ وہ کسی طرح سے اپنے وجود کا ثبوت دے۔ ایوان کی کارروائی میں خلل ڈالنے کی عادت نئی نہیں ہے۔ ہر حکمراں پارٹی کو اپوزیشن کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مرتبہ ایوان میں اپوزیشن گروپ مضبوط نہیں ہے۔ اس کے باوجود کانگریس، بائیں بازو اور جنتا پریوار نے این ڈی اے حکومت کے خلاف متحدہ جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس جذبہ کے تحت ایوان میں احتجاج ہورہا ہے۔ پارلیمانی سرمائی سیشن کے دوسرے دن بھی اپوزیشن نے بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے حکومت کو جوابدہ بنانے کی کوشش کی۔ سی بی آئی سربراہ کے تقرر پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں اور ایف ڈی آئی انشورنس سیکٹر کا مسئلہ بھی موضوع بحث ہے۔ اپوزیشن کے اس احتجاج کے بعد پارلیمانی کارروائی ٹھپ ہوجائے گی۔ کوئی بل منظور نہیں ہوسکے گا۔ ترنمول کانگریس کے ارکان پارلیمنٹ نے بھی پارلیمنٹ کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا ہے اور راجیہ سبھا میں وقفہ سوالات کو معطل کرکے کالے دھن کے مسئلہ پر جامع مباحث پر زور دیا ہے۔ پارلیمنٹ کے داخلی راستوں کو روک کر احتجاج کرنے والے ان ٹی ایم سی ارکان پارلیمنٹ کو بہرحال اپنی کوشش میں ناکامی ہوئی۔ حکومت نے ان کے احتجاج کو خاطر میں نہیں لایا۔ پارلیمنٹ میں کئی ایک اہم مسائل پر غوروخوض کرنا ہے۔ سب سے اہم مسئلہ عوام کو درپیش مسائل، مہنگائی، برقی، روزگار اور صاف صفائی، پینے کا صاف پانی ہے۔ ان مسائل کو ایک کنارہ کرکے دیگر موضوعات کو اس لئے ایجنڈہ بنایا جارہا ہے کیونکہ ان موضوعات پر ہی انتخابی مقابلہ کرکے بی جے پی نے کانگریس اور دیگر پارٹیوں کو چیلنج کیا تھا۔ عوام نے بھی نریندر مودی زیرقیادت انتخابی مہم اور پروپگنڈہ پر یقین کرکے کانگریس کو شکست کا منہ دکھایا تھا۔ اب پارلیمنٹ کے اندر کانگریس انہی مسائل کو اٹھانے کو اپنا حق سمجھتی ہے۔ انشورنس بل کی اس لئے شدید مخالفت کی جارہی ہے، کیوں کہ اس سے ہندوستانی عوام کو بیرونی راست سرمایہ کاری کے ذریعہ ضرب پہونچایا جاسکتا ہے۔ بل کی مخالفت کرنے والی پارٹیوں میں شیوسینا بھی شامل ہوگئی ہے۔ بی جے پی کی پرانی حلیف پارٹی بھی جب بی جے پی کا ساتھ چھوڑ کر اپوزیشن کی صفوں کو مضبوط بناسکتی ہے تو پارلیمنٹ میں 37 بلوں کی منظوری مودی حکومت کے لئے ایک کٹھن مرحلہ ہوگا۔ واقعتاً اگر مودی حکومت کو یہ علم نہیں کہ مسائل ہیں کیا؟ اگر اسے علم ہے تو جرأت نہیں کہ ان مسائل کے گریباں میں ہاتھ ڈال سکیں۔ آنے والے دنوں میں مودی حکومت خود کو ان مسائل سے چھٹکارہ دلانے اور عوام کی توجہ اپنی ناکامیوں سے ہٹانے کے لئے ملک بھر میں فرقہ وارانہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہوجائے تو یہ موجودہ مسائل سے زیادہ بھیانک مسئلہ ہوگا اور جمہوریت فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، بھائی چارگی کا نعرہ لگانے والی سیکولر پارٹیاں لکیریں پیٹتے رہ جائیں گی۔