پارلیمنٹ سرمائی اجلاس

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
پارلیمنٹ سرمائی اجلاس
پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کا آج اختتام عمل میں آیا ۔ مرکزی حکومت نے اس سشن کو کارآمد اور ایک طرح سے کامیاب قرار دیا ہے جبکہ راجیہ سبھا کے صدر نشین ایم وینکیا نائیڈو نے ایوان کا وقت ضائع کئے جانے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور انہوں نے ارکان کو مشورہ دیا کہ وہ ایوان میں اپنے کام کاج کا احتساب کریں ۔ وینکیا نائیڈو نے یہ ریمارک اس لئے کیا کیونکہ 13 روزہ سرمائی اجلاس میں جملہ 34 گھنٹے کا وقت ضائع ہوگیا ہے ۔ 13 ایام کار والے اس سشن میں لوک سبھا میں جملہ 13 سرکاری بلوں کو منظوری دی گئی جبکہ راجیہ سبھا میں 9 بلز منظور کئے گئے ۔ اس کے علاوہ مرکزی حکومت اس سشن میں مزید بلوں کو منظور کروانے کی کوشش کر رہی تھی تاہم اسے اپنے رویہ اور اپوزیشن کے احتجاج کی وجہ سے کامیابی نہیں مل سکی ہے ۔ نائب صدر جمہوریہ ہند کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات یہ ہے کہ بڑی حد تک اس ایوان میں کام کاج ہوا ہے لیکن ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایوان میں مسلسل رکاوٹ اور گڑبڑ و ہنگامہ آرائی کے نتیجہ میں ایوان کا وقار کچھ حد تک متاثر ہوا ہے ۔ وینکیا نائیڈو کے بموجب شدت کے ساتھ مباحث جمہوریت کا حصہ ہیں لیکن ایوان کی کارروائی میں بار بار خلل پیدا کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔ وہ ارکان کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس سلسلہ میں اپنے اپنے رویہ کا محاسبہ کریں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ایوان میں مسلسل ہنگاموں کی وجہ سے کافی وقت متاثر ہوا ہے اور ایوان کے وقار پر بھی اس کا اثر ضرور ہوا ہے ۔ جس طرح سے ایوان کا وقت ضائع کیا جا رہا ہے اور سارا ملک اسے دیکھ رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے ایوان میں برسر اقتدار جماعت ہو یا اپوزیشن کے ارکان ہوں سب کو اپنے اپنے رویہ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ تمام ارکان کو خود احتسابی کی ضرورت ہے ۔ ایوان میں ہر دو فریقین کا رویہ افسوسناک رہا ہے ۔ کسی بھی فریق نے جمہوری اقدار یا پارلیمنٹ کے وقار اور احترام کو خاطر میں لانا ضروری نہیں سمجھا اور ہر کسی نے اپنے اپنے سیاسی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کام کیا ہے ۔ اپوزیشن کی صفیں ہوں یا برسر اقتدار جماعت کے بنچس ہوں ہر کسی کے سامنے اپنے مفادات ہی نظر آئے اورکسی کیلئے بھی پارلیمانی تقدس اہمیت کا حامل نہیں رہا ۔
بات صرف پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس ہی تک محدود نہیں ہے ۔ پارلیمنٹ میں جس وقت سے بی جے پی کو سادہ سے زیادہ اکثریت ملی ہے اور اسے دیگر حلیف جماعتوں کی تائید بھی حاصل ہے اس وقت سے ہی ایوان میں بی جے پی اکثریتی غلبہ اور اجارہ داری کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے ۔ اس کے ہر ہر عمل سے واضح ہے کہ وہ اپوزیشن کو اس کا مقام دینے کو تک بھی تیار نہیں ہے ۔ وہ کسی تجویز یا ترمیم کو قبول کرنے کیلئے بھی قطعی تیار نہیں ہے ۔ اس کے سامنے صرف اپنے مقاصد اور عزائم ہیں جن کی تکمیل کیلئے وہ پارلیمنٹ جیسے ادارہ کا بھی استعمال کرنے سے گریز نہیں کر رہی ہے ۔ جمہوریت کی یہ خوبصورتی ہے کہ حکومتیں اقتدار میں رہتے ہوئے بھی اپوزیشن کی تجاویز اور ترامیم کا احترام کرتی ہیں۔ انہیں قوانین اور مسودہ قوانین میں شامل کیا جاتا ہے ۔ عوام کے جذبات و احساسات کو قبول کیا جاتا ہے ۔ حکومت کی کسی تجویز یا امکانی قانون سازی پر رائے عامہ معلوم کی جاتی ہے ۔ اس کو دیکھتے ہوئے اصل تجویز میںترامیم اور تبدیلیاں کی جاتی ہیں لیکن بی جے پی زیر قیادت نریندر مودی حکومت ایسا کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ۔ وہ اکثریت کے زعم میں کام کر رہی ہے اور جمہوری اقدار اور اپوزیشن کے احترام کو تسلیم کرنے کیلئے بھی تیار نہیں ہے ۔ اب تک بی جے پی زیر قیادت حکومت کے دور میں جتنے بھی قوانین بنائے گئے ہیں ان سب کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔ ان میں اکثریت ایسے قوانین کی ہے جن میںاپوزیشن یا دیگر ارکان کی جانب سے پیش کردہ تجاویز کو بالکل بھی قبول نہیں کیا گیا ۔ حکومت کا موقف لچک سے عاری رہا ۔
اپوزیشن کا بھی جہاں تک مسئلہ ہے وہ ایوان میں بعض اہم موقعوں پر محض اپنی خفت مٹانے کیلئے ہنگامہ آرائی کا سہارا لینے پر مجبور ہے ۔ اس کے اپنے سیاسی مفادات ہیں جن کو نظر میں رکھتے ہوئے کام کیا جا رہا ہے ۔ حکومت کو گھیرنے کے کئی موقعوں کو اپوزیشن کی جانب سے محض اس لئے نظر انداز کردیا گیا کیونکہ اس کی اپنی صفوں میں اتحاد کا فقدان ہے ۔ کسی مسئلہ پر اپوزیشن جماعتوں میں مکمل اتحاد اور اتفاق نظر نہیں آیا ۔ چونکہ اپوزیشن میں زیادہ اکثریت علاقائی جماعتوں کی ہے اور ان کی اپنی مجبوریاں ہیں ان کا فائدہ بھی حکومت نے اٹھانے سے گریز نہیں کیا ۔ کانگریس کا جہاں تک سوال ہے اس کا موقف انتہائی کمزور ہے اور وہ حکومت کو تنہا نشانہ بنانے کے موقف میںن ہیں ہے ۔ بحیثیت مجموعی پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس بھی عوام کیلئے زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوا اور اس میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کی صفوں میں سنجیدگی کا فقدان ہی نظر آیا ۔