سپریم کورٹ کے چار سینئر ججس اور چیف جسٹس کے درمیان تنازعہ ، فلم پدماوت تشدد ، اور دیگر مسائل پر اپوزیشن پارٹیاں متحد
٭ جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد یکم فبروری کو پہلا بجٹ
٭ اقتصادی اصلاحات پر سخت اقدامات ممکن
نئی دہلی ۔ /28 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) پارلیمنٹ کا بجٹ سیشن کل سے شروع ہورہا ہے ۔ امکان غالب ہے کہ حکومت اس سیشن کے دوران متنازعہ تین طلاق بل کو منظور کرانے کی تازہ کوشش کرے گی لیکن اس پر اپوزیشن کی جانب سے شدید مخالفت کی جائے گی ۔ گزشتہ سیشن میں اس بل کو روکنے اپوزیشن نے کارروائی میں خلل پیدا کی تھی ۔ سیاسی قائدین نے یہاں کہا کہ ہم اس مرتبہ بھی حکومت کے مجوزہ بل کے خلاف متحد ہیں ۔ اس کے علاوہ حکومت اپنے بجٹ ترجیحات میں توجہ دیتے ہوئے آئندہ سال انتخابات کی بھی تیاری کرے گی ۔ لیکن اپوزیشن اس کی سخت مخالفت کرے گی ۔ حکومت کیلئے اپوزیشن کو خاموش رکھنا مشکل ہوگا ۔ کیوں کہ سپریم کورٹ کے چار اعلیٰ ججس اور چیف جسٹس کے درمیان تنازعہ کے علاوہ فلم پدماوت کے مسئلہ پر ملک میں تشدد کے واقعات اور دیگر کئی اہم مسائل پر زیادہ تر سیاسی پارٹیوں نے اپنے اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے ۔ پارلیمنٹ کے بجٹ سیشن کا پہلا مرحلہ 29 جنوری سے شروع ہوکر 09 فروری تک چلے گا۔ پہلے دن صدر رام ناتھ کووند دونوں ایوانوں سے مشترکہ خطاب کریں گے ۔ اپنے پہلے خطاب میں وہ حکومت کی ترقی اور اقتصادی پروگراموں کا خاکہ پیش کریں گے ۔ اسی دن اقتصادی سروے کے ذریعے ملک کی معیشت کا حساب کتاب پیش کیا جائے گا۔بجٹ سیشن کا دوسرا مرحلہ چھٹی کے بعد 05 مارچ سے 06 اپریل تک ہوگا۔عام بجٹ یکم فروری کو پیش کیا جائے گا جو مودی حکومت کا پانچواں بجٹ ہوگا۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات اور اس سے پہلے آٹھ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بجٹ میں مقبول اعلانات کئے جا سکتے ہیں لیکن اقتصادی اصلاحات پر حکومت کے زور کو دیکھتے ہوئے کچھ سخت قدم بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔ ملک میں ایک ٹیکس نظام ‘ گڈز اینڈ سروس ٹیکس ‘ نافذ ہونے کے بعد پہلی بار بجٹ پیش کیا جا رہا ہے اور اس کا اثر بھی بجٹ پر دکھائی دے گا۔تقریبا تمام اپوزیشن پارٹیوں کی ‘بی جے پی کی مخالفت’ کی پالیسی حکومت کے لئے سب سے بڑی مصیبت کا سبب ہے ۔ کچھ ایشوز پر غیر جانبدار رہتی آرہی نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے بھی اب کھل کر حکومت کے خلاف آنے سے جہاں اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس کا حوصلہ بڑھا ہوا ہے وہیں حکومت پر اس کا دباؤ بڑھ سکتا ہے ۔ این سی پی لیڈر شرد پوار نے یوم جمہوریہ کے دن کچھ دیگر اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ ‘آئین بچاؤ’ مارچ نکال کر حکومت کو گھیرنے کے اشارے دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ بجٹ سیشن کے پہلے دن 29 جنوری کی شام کو بھی اپوزیشن پارٹیاں میٹنگ کر کے حکومت کو گھیرنے کی حکمت عملی پر بات چیت کریں گی۔ مرکز میں حکومت میں شامل شیو سینا گزشتہ کافی عرصے سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو گھیرتي رہی ہے اور اسی ہفتے اس کے آئندہ لوک سبھا انتخابات تنہا لڑنے کے اعلان سے اس کے تیور اور تیکھا ہونے کا امکان ہے ۔پارٹی کی باگ ڈور راہل گاندھی کے ہاتھ میں آنے کے بعد سے کانگریس مودی حکومت کے خلاف کافی جارحانہ رخ اپنا رہی ہے اور اسی کے تحت مسٹر گاندھی نے گزشتہ جمعرات کو پارٹی لیڈروں کی میٹنگ بلا کر بجٹ اجلاس کی حکمت عملی پر تفصیل سے بحث کی۔ وہ گجرات انتخابات کے وقت سے ہی وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں کی پرزور مخالفت کر رہے ہیں۔ڈیووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں وزیر اعظم کی طرف سے کئے گئے دعووں پر سوال اٹھاتے ہوئے مسٹر گاندھی نے پوچھا تھا کہ کیا وہ بتائیں گے کہ ملک کی 73 فیصد پراپرٹی پر صرف ایک فیصد لوگوں کا ہی قبضہ کیوں ہے ۔سپریم کورٹ معاملہ میں بھی مسٹر گاندھی نے خود مورچہ سنبھالتے ہوئے ٹاپ ججوں کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات کے حل اور جج بی ایچ لویا کی موت کی جانچ کی مانگ کی تھی۔ مارکسی کمیونسٹ پارٹی کے چیف جسٹس دیپک مشرا کے خلاف مواخذے چلانے کی بات کر رہے ہیں۔ مسٹر شرد یادو نے بھی تمام پارٹیوں سے اس مسئلے پر بات چیت کرنے کی حمایت کی ہے ۔تین طلاق کے معاملے پر بھی کانگریس کے رخ میں کوئی نرمی نہیں آئی ہے اور وہ اس سے متعلق بل کو راجیہ سبھا کی سلیکٹ کمیٹی میں بھیجنے کی درخواست پر اڑی ہوئی ہے ۔ زیادہ تر اپوزیشن پارٹی بھی اس معاملے پر کانگریس کے ساتھ ہیں۔ اس لئے حکومت کو راجیہ سبھا میں ایک بار پھر متحد اپوزیشن سے نمٹنے کی حکمت عملی بنانی ہوگی۔گزشتہ سیشن میں اس معاملہ پر راجیہ سبھا میں کافی ہنگامہ خیز رہا تھا جس سے کام کاج متاثر ہوا تھا۔ ایوان میں اس بل پر ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہو پایا ہے ۔ ملکہ پدماوتي کو لے کر بنائی گئی فلم کی کچھ تنظیموں کی طرف سے مخالفت اور تشدد پر بھارتیہ جنتا پارٹی حکومتوں کی خاموشی کو لے کر بھی اپوزیشن میں غصہ ہے ۔اپوزیشن اسے اظہار رائے کی آزادی سے جوڑ کر دیکھ رہی ہے اور الزام لگا رہی ہے کہ اس میں بی جے پی کی ساز بازہے ۔دیگر پسماندہ طبقات کمیشن کو آئینی درجہ دینے سے متعلق آئینی ترمیم بل پر بھی برسراقتدار اور اپوزیشن کے درمیان خاصی بحثا بحثی ہونے کا امکان ہے اور حکومت کو اسے راجیہ سبھا میں منظور کرانے میں ایک بار پھر مشقت کرنی پڑے گی۔لوک سبھا نے اس بل کو منظور کرلیا تھا لیکن گزشتہ سیشن میں راجیہ سبھا نے اس میں کچھ ترمیم کر دئیے جس سے اسے ایک بار پھر لوک سبھا میں منظور کرایا جانا تھا لیکن حکومت ان ترامیم کو شامل کئے بغیر دوبارہ لوک سبھا میں لے آئی ہے ۔مالیاتی اور جمع انشورنس بل کی بھی اپوزیشن مخالفت کر رہی ہے ۔یہ بل ابھی دونوں ایوانوں کی مشترکہ کمیٹی کے پاس ہے اور کمیٹی کو بجٹ سیشن کے آخر تک اپنی رپورٹ دینی ہے ۔