پارلیمنٹ بجٹ اجلاس

زمامِ کار اگر مزدور کے ہاتھوں میں ہو پھر کیا
طریقِ کوہکن میں بھی وہی حیلے ہیں پرویزی
پارلیمنٹ بجٹ اجلاس
پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کا پیر سے آغاز ہو رہا ہے ۔ یہ اہمیت کا حامل اجلاس ہے اس میں نریندر مودی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت اپنا اولین مکمل بجٹ پیش کریگی ۔ بجٹ کی تیاریوں کا آغاز ہوچکا ہے ۔ حکومت کی جانب سے مختلف بلوں کو بھی ایوان کی منظوری کیلئے پیش کرنے کا منصوبہ ہے ۔ حکومت کے منصوبوں کے اعتبار سے ان بلوں کو بہت اہمیت حاصل ہے ۔ خاص طور پر حصول اراضی آرڈیننس کا بل بہت اہمیت کا حامل ہے اور حکومت اس بل کی منظوری کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے ۔ اسے لوک سبھا میں تو اکثریت حاصل ہے اور یہاں اس بل کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے تاہم اسے راجیہ سبھا میں درکار عددی طاقت حاصل نہیں ہے ۔ یہاں اسے اپوزیشن کی تائید کی ضرورت ہے اور اسی حقیقت کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت اپوزیشن جماعتوں کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کریگی ۔ حکومت چاہتی ہے کہ کانگریس پارٹی بھی ایوان میں بلوں کی منظوری کیلئے تائید کرے ۔ کانگریس پارٹی نے بھی اپنے منصوبے واضح کردئے ہیں۔ وہ اس بل کی تائید کرنے کو تیار نظر نہیں آتی ۔ ویسے بھی کانگریس کیلئے موقع ہوسکتا ہے کہ وہ ایوان میں حکومت کو مشکلات کا شکار کرے ۔ کانگریس کو یہ احساس بھی ہے کہ حکومت نے عددی طاقت نہ ہونے کی وجہ سے اسے قائد اپوزیشن کا عہدہ دینے سے گریز کیا ہے ۔ کانگریس اب اس مسئلہ پر اپنا بدلہ چکانے کی کوشش کرسکتی ہے ۔ صدر کانگریس کے سیاسی مشیر احمد پٹیل نے واضح کردیا ہے کہ اگر حکومت کانگریس سے تائید کی امید رکھتی ہے تو یہ عجیب بات ہے ۔ احمد پٹیل کا یہ ریمارک کانگریس کے ارادوں اور منصوبوں کو واضح کرتا ہے کہ وہ حکومت کی تائید نہیں کریگی ۔ ویسے بھی کانگریس نے ایوان کے باہر میں حصول اراضیات آرڈیننس کے خلاف احتجاج کا رویہ ہی اختیار کیا ہے تو ایسے میں ایوان کے اندر اس بل کی تائید کرنا ممکن نہیں ہے ۔ کانگریس چاہتی ہے کہ اس آرڈیننس پر احتجاج کرتے ہوئے عوام میں اپنے لئے کچھ جگہ بنائی جائے ساتھ ہی حکومت کیلئے مشکلات بھی پیدا کی جاسکیں۔ اس سے کانگریس کو اپنے لئے سیاسی ماحول کو قدرے سازگار بنانے میں مدد مل سکتی ہے اور وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتی ہے ۔ دیگر سیاسی جماعتیں ابھی تک اس مسئلہ پر اپنے موقف کو واضح نہیں کر رہی ہیں۔ وہ ایوان میں اپنی حکومت عملی ظاہر کرینگی ۔ جہاں تک بائیں بازو کی جماعتوں کا سوال ہے ان سے حکومت کی تائید کی امید کرنا فضول ہی کہا جاسکتا ہے ۔ تلگودیشم اور دیگر تائیدی جماعتیں حکومت کی تائید کرینگی ۔ تاہم حکومت کیلئے یہ کافی نہیں ہے ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ حکومت نے سماجوادی پارٹی ‘ راشٹریہ جنتادل اور دوسری جماعتوں کی عملا خوشامد شروع کردی ہے ۔ پارلیمنٹ میں حکومت کو درکار تائید کو دیکھتے ہوئے ہی وزیر اعظم نریندر مودی نے اتر پردیش میں ملائم سنگھ یادو اور لالو پرساد یادو کے رشتہ داروں کی شادی میں شرکت کی ۔ اگر حکومت کو ان جماعتوں کی تائید درکار نہ ہوتی تو یہاں وزیر اعظم کی شرکت ممکن نہیں تھی ۔ جہاں تک لالو پرساد یادو کا سوال ہے وہ بہار میں بی جے پی کے خلاف محاذ میں جے ڈی یو اور کانگریس کے ساتھ ہیں۔ انہیں بی جے پی بڑھتی ہوئی طاقت کو بہار میں روکنا ہے جو ان کے سیاسی وجود اور بقا کیلئے ضروری ہے ۔ ملائم سنگھ یادو حالانکہ یو پی میں برسر اقتدار جماعت کے سربراہ ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ریاست کے حالات کو دیکھتے ہوئے بی جے پی سے قربت بڑھانے سے گریز نہ کریں۔ یہ ان کی سیاسی حکمت عملی ہوسکتی ہے ۔ وہ بی جے پی سے قربت بڑھاتے ہوئے بی جے پی کے کٹر حامی ووٹوں کا تناسب کم کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی مرکزی حکومت سے کچھ مراعات حاصل کرتے ہوئے ریاست میں اپنی پارٹی کا موقف مستحکم کرنا چاہتے ہیں۔ اب اس حکمت عملی میں کس حد تک کامیاب ہوسکتے ہیں یہ وقت ہی بتائیگا ۔ پارلیمنٹ میں حکومت کے تیور میں بھی نرمی آسکتی ہے ۔ دہلی اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو انتہائی شرمناک شکست ہوئی ہے اس سے حکومت کے رویہ میں تبدیلی فطری بات ہوسکتی ہے ۔ اس نے اپوزیشن جماعتوں کو یکسر نظر انداز کرنے کی حکمت عملی کو شائد تبدیل کردیا ہے اور وہ اب ان کے وجود کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ یہ اس کی سیاسی مجبوری ہے ۔ مشترکہ اپوزیشن جماعتوں کیلئے پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس ایک اچھا موقع ہوسکتا ہے اگر وہ حکومت کو مسائل کا شکار کرنے میں کامیاب ہوتی ہیں۔ تاہم اس کیلئے ان کا متحد ہونا ضروری ہے جو بظاہر ممکن نظر نہیں آتا ۔ اپوزیشن کے اتحاد کو ملائم سنگھ یادو سے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں اور ان مسائل میں حکومت اپنا مقصد پورا کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ مشترکہ اپوزیشن جماعتیں اگر ملائم سنگھ یادو کو بی جے پی کی قربت سے روک پائیں تو پھر بجٹ اجلاس میں مودی حکومت کو اصل امتحان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔