دونوں ٹیمیں ہم پلہ ، دو سابق چمپینس میں رنراَپ کون ہوگا ، شائقین میں جوش کے ساتھ تجسس
کولکتہ۔2 اپریل (سیاست ڈاٹ کام) آئی سی سی ورلڈ ٹی۔ 20 فائنل کل یہاں ایک بھرپور صلاحیتوں کی حامل ٹیم انگلینڈ اور طاقتور ویسٹ انڈیز کے درمیان دلچسپ و سنسنی خیز مقابلہ ہوگا۔ میزبانوں کی امیدوں پر پانی پھیرنے کے ذریعہ بلند حوصلے کے ساتھ ابھرنے والی ویسٹ انڈیز اور تکنیکی مہارتوں کی حامل انگلینڈ کے درمیان یہ مقابلہ دراصل بیٹنگ کی جنگ ثابت ہوگا۔ ویسٹ انڈیز کی پُرجوش ٹیم کو گروپ اسٹیج کے ایک مقابلہ میں افغانستان کے ہاتھوں شکست کے سواء کوئی دوسری ہزیمت کا سامنا کرنا نہیں پڑا تھا، بلکہ نووارد اور کمزور افغان ٹیم کے ہاتھوں اس کی شکست حقیقت کے بجائے محض پریوں کی انسانوں کہانی کی حیثیت رکھتی ہے۔ فیس کی ادائیاتکے بارے میں اپنے کرکٹ بورڈ کے ساتھ جاری تنازعہ کے سبب کریبائی جزیرہ کے چست کھلاڑیوں کی اس ٹورنمنٹ میں شرکت تقریباً موہوم ہوچکی تھی جس کے باوجود انہوں نے رواں ٹورنمنٹ میں روایتی دلچسپی و مستعدی کا مظاہرہ کیا۔ کپتان ڈیرن سیمی نے کھلاڑیوں پر ملک کی دولت خرچ کئے جانے کے الزام کے مسئلہ پر اپنے کرکٹ بورڈ کے ساتھ جاری تنازعہ کا مبہم حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’یہ ہم (کرکٹ بورڈ) ہی ہیں جو ساری دنیا کے برخلاف ہیں‘‘۔ ویسٹ انڈیز کے مدمقابل انگلینڈ ہے، وہ بھی اپنی موجودہ حریف کی طرح ماقبل ٹورنمنٹ کی فہرست میں فائنل کیلئے پسندیدہ ٹیموں کی فہرست میں اپنا نام درج نہیں کرواسکی تھی تاہم ہندوستان کے افسانوی کرکٹر سچن ٹنڈولکر نے انگلینڈ کو فائنل کیلئے ایک پسندیدہ ٹیم قرار دیا تھا۔
ان دونوں کے درمیان کسی ایک کا انتخاب کرنا دشوار ہوگا کہ کونسی ٹیم فائنل میں دوسری مرتبہ پہلا اور دوسرا مقام حاصل کرے گی۔ انگلینڈ کو 2010ء میں اور اس کے دو سال بعد ویسٹ انڈیز کو 2012ء میں فتح ہوئی تھی۔ ایڈن گارلأ 1987ء کے بعد پہلی مرتبہ ورلڈ کپ فائنل کی میزبانی کررہا ہے۔ 1987ء کے مقابلے میں مائیک گیٹنگ کے زیرقیادت انگلینڈ کی ٹیم کو ونڈے انٹرنیشنل فارمیٹ کے اس ٹورنمنٹ میں آسٹریلیا کے خلاف محض 7 رنز سے شکست ہوگئی تھی جس کے 29 سال بعد انگلینڈ کی ٹیم اب اسی مقام پر دوسری مرتبہ ورلڈ کپ فائنل کھیل رہی ہے۔ ویسٹ انڈیز کے خلاف 4 کامیابیوں اور 9 ناکامیوں کے ریکارڈ کے ساتھ انگلینڈ کی ٹیم اگرچہ کمزور شروعات کرسکتی ہے لیکن ائیوین مورگن کی بردبار اور پُرسکون قیادت ایک باصلاحیت طاقت کی حیثیت سے اُبھر سکی ہے۔
جہاں تک ویسٹ انڈیز کے سفر کا تعلق ہے، اس نے مثالی انداز میں اپنی تیاری کی جس کے 15 کے منجملہ 12 کھلاڑیوں نے انتہائی کم وقفہ میں صرف ایک مرتبہ کہنے پر کھیلنے سے اتفاق کرلیا تھا اور دبئی میں ایک ہفتہ تک سخت محنت کے ساتھ پریکٹس کی، تاہم اس ٹیم میں 3 طاقتور کھلاڑیوں سنیل نارائن، کیرون پولارڈ اور ڈیرن براویو شامل نہیں ہیں۔ لیکن یہ حقیقت دیکھی گئی کہ جب کبھی ضرورت پڑی ویسٹ انڈیز کو ایک ہیرو ضرور مل گیا جس کی تازہ ترین مثال لنڈل سیمن ہیں جنہوں نے اینڈری فلیچر کے بجائے کھیلنے کیلئے دیر سے مدعو کئے جانے کے باوجود بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیمی فائنلس میں ہندوستانی ٹیم کو شکست فاش سے دوچار کردیا تھا۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم میں یہ خصوصیت بھی ہے کہ جب کبھی اس کے اسٹار بیٹسمین یا بولرس ناکام ہوجاتے ہیں تو اس کا کوئی نہ کوئی کھلاڑی غیرمتوقع ہیرو کی طرح اُبھر آتا ہے۔ جب کرس گیل کی آندھی بے اثر ہوگئی تو جانسن چارلس سیمنس جیسے غیرمتوقع ہیروز نے طوفان بپا کردیا تھا۔ انگلینڈ کے بعض کھلاڑیوں میں بھی یہ صلاحیت دیکھی جاچکی ہے جس کی بہترین مثال جوروٹ ہیں جنہوں نے سوپر 10 میں جنوبی آفریقہ کے خلاف محض 44 گیندوں میں 83 رنز بناکر اپنی ٹیم کو شکست کے سمندر میں ڈوبتی ہوئی کشتی کو کامیابی کے ساحل سے ہمکنار کیا تھا۔ جیسن رائے اور الیکس ہیلس بھی اس کے اہم کھلاڑی ہیں۔