ٹی سرینواس یادو کیخلاف دھوکہ دہی کا مقدمہ درج کیا جائے

ریاستی وزیر کو کابینہ سے علیحدہ کرنے کے سی آر سے محمدعلی شبیر کا مطالبہ
حیدرآباد 19 جولائی (این ایس ایس) تلنگانہ قانون ساز کونسل میں قائد اپوزیشن محمد علی شبیر نے ریاستی حکومت سے مطالبہ کیاکہ وزیر ٹی سرینواس یادو کے خلاف رکن اسمبلی کے عہدہ سے استعفیٰ نہ دیتے ہوئے لیکن اسپیکر کو استعفیٰ دینے کا ادعا کرتے ہوئے عوام کو دھوکہ دینے کے لئے دھوکہ دہی کا مقدمہ دائر کیا جائے۔ آج یہاں میڈیا سے مخاطب کرتے ہوئے محمد علی شبیر نے سرینواس یادو سے استفسار کیاکہ آیا وہ عوام کی خدمت کے لئے اسمبلی میں داخل ہوئے ہیں یا انھیں دھوکہ دینے کے لئے۔ انھوں نے الزام عائد کیاکہ سرینواس یادو تلنگانہ کے عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ محمد علی شبیر نے حکومت سے پوچھا کہ گورنر نے کس طرح دوسری سیاسی پارٹی سے منتخب ہونے والے ٹی سرینواس یادو کو بحیثیت وزیر حلف لینے کی اجازت دی۔ انھوں نے کہاکہ کانگریس آئندہ منعقد ہونے والے اسمبلی سیشن میں پارٹی سے انحراف کرنے والوں کے مسئلہ پر حکمراں جماعت پر شکنجہ کسے گی۔ انھوں نے کہاکہ حالانکہ ان کی جانب سے گورنر کے پاس شکایت درج کروائی گئی ہے۔ اس کے باوجود گورنر نے سرینواس یادو مسئلہ پر کوئی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ محمد علی شبیر نے کہاکہ کانگریس، پارٹی سے انحراف کے مسئلہ کو پارلیمنٹ میں بھی اُٹھائے گی اور چیف منسٹر سے مطالبہ کیاکہ اگر ان میں اخلاقی اقدار کا کچھ پاس و لحاظ ہے تو وہ ٹی سرینواس یادو کو کابینہ سے علیحدہ کردیں۔ یہ کہتے ہوئے کہ گورنر قانون کے محافظ ہیں محمد علی شبیر نے کہاکہ گورنر گزشتہ سات ماہ سے مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے درج کروائی جارہی شکایتوں پر توجہ نہیں دے رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہاکہ اگر واقعی چیف منسٹر مسٹر کے چندرشیکھر راؤ میں اخلاقی اقدار اور اصول پسندی ہو تو فی الفور سرینواس یادو کو کابینہ سے برطرف کردینے پر زور دیا اور دریافت کیاکہ آخر چیف منسٹر کو سرینواس یادو نے غلط باور کرواکر گمراہ کیا یا خود چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ نے سرینواس یادو کو غلط مشورہ دیا۔ فوری اس سلسلہ میں وضاحت کرنے کا چیف منسٹر سے مطالبہ کیا۔ مسٹر محمد علی شبیر نے سرینواس یادو کے استعفیٰ معاملہ میں گورنر ریاست تلنگانہ مسٹر ای ایس ایل نرسمہن کے رول پر بھی اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کیا اور کہاکہ گزشتہ سات ماہ سے تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے سرینواس یادو کے تعلق سے مؤثر نمائندگیوں کے باوجود گورنر نے تمام سیاسی جماعتوں کے مطالبات کو بالکلیہ طور پر نظرانداز کردیا۔