حیدرآباد۔یکم اپریل، ( سیاست نیوز)تلنگانہ راشٹرا سمیتی نئی ریاست میں ایک طاقتور علاقائی جماعت کے طور پر ابھرنے کی کوشش کررہی ہے تاہم اسے گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن کے حدود میں واقع 24اسمبلی حلقوں میں مایوسی کا سامنا ہے۔ شہر کے ان 24اسمبلی حلقوں میں پارٹی کو مضبوط امیدواروں کی تلاش ہے جس میں اسے کافی دشواریوں کا سامنا ہے۔ شہر کے 24اسمبلی حلقوں میں ٹی آر ایس کا کیڈر کافی کام اور مضبوط قائدین کی تعداد بھی اطمینان بخش نہیں ہے۔ اس صورتحال کے سبب ٹی آر ایس قیادت نے ان حلقوں میں بہتر مظاہرہ کی حکمت عملی تیار کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پارٹی نے گریٹر حیدرآباد کے تمام اسمبلی حلقوں میں مقابلہ کا فیصلہ کیا اور کامیابی کو یقینی بنانے والے امیدواروں کی تلاش بھی جاری ہے۔ ایسے امیدواروں کو ترجیح دی جائے گی جو عوامی مقبولیت کے ساتھ ساتھ انتخابی مہم میں پارٹی فنڈ کے بجائے اپنے طور پر رقومات خرچ کرسکیں۔ تلنگانہ کے 9 اضلاع میں اکثریت حاصل کرنے کا دعویٰ کرنے والی ٹی آر ایس کو فی الوقت گریٹر حیدرآباد کے حدود میں ایک بھی حلقہ میں نمائندگی حاصل نہیں۔ 2009ء میں تلگودیشم اور بائیں بازو جماعتوں کے ’مہا کوٹمی‘ کے تحت ٹی آر ایس نے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ پارٹی نے مشیرآباد، کوکٹ پلی، عنبرپیٹ، صنعت نگر، اوپل، قطب اللہ پور اور مہیشورم حلقوں سے مقابلہ کیا تھا لیکن ایک بھی نشست پر کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ کئی حلقوں میں اس کے امیدوار دوسرا مقام بھی حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ کوکٹ پلی میں ٹی آر ایس امیدوار سدرشن راؤ نے 26,753ووٹ حاصل کرتے ہوئے چوتھا مقام حاصل کیا تھا جبکہ عنبرپیٹ میں کے جگدیشور کو بھی چوتھا مقام حاصل ہوا۔ مہیشورم اسمبلی حلقہ میں ٹی آر ایس امیدوار پربھاکر ریڈی کو صرف 1471 ووٹ حاصل ہوئے تھے اور وہ آٹھویں مقام پر رہے۔ صنعت نگر، اوپل اور قطب اللہ پور میں ٹی آر ایس کو دوسرا مقام حاصل ہوا تھا۔ 2004ء میں ٹی آر ایس نے کانگریس سے مفاہمت کے ساتھ 11اسمبلی حلقوں میں مقابلہ کیا
اور مشیرآباد اور سکندرآباد میں اسے کامیابی حاصل ہوئی۔ پارٹی ذرائع نے بتایا کہ اگرچہ قیادت نے تمام 24حلقوں پر امیدوار کھڑے کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم اسے مشیرآباد، سکندرآباد، ملکاجگیری، ایل بی نگر، شیر لنگم پلی، مہیشورم، قطب اللہ پور اور اوپل میں بہتر مظاہرہ کی امید ہے۔ اگر مقابلہ سہ رُخی یا پھر ہمہ رُخی ہو تو ایسی صورت میں ٹی آر ایس کے امکانات متاثر ہوں گے۔ حیدرآباد کے اسمبلی حلقہ جات میں سیما آندھرا رائے دہندوں کی خاصی تعداد کے سبب ٹی آر ایس کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ پارٹی سیما آندھرا رائے دہندوں کی تائید حاصل کرنے کیلئے انہیں تلنگانہ ریاست میں مکمل تحفظ فراہم کرنے کا بھروسہ دلارہی ہے۔ ٹی آر ایس پولیٹ بیورو رکن پدما راؤ نے حلقہ اسمبلی سکندرآباد کی نمائندگی 2004-09 کی تھی تاہم بعد میں ان کا حلقہ تبدیل کردیا گیا کیونکہ سکندرآباد اسمبلی حلقہ تلگودیشم کے حصہ میں آیا۔ پرانے شہر کے تحت اسمبلی حلقوں میں مقابلہ کے سلسلہ میں ٹی آر ایس قیادت کو کوئی خاص دلچسپی نہیں اور وہ بتایا جاتا ہے کہ امیدواروں کے انتخاب کے مسئلہ پر مقامی جماعت کے دباؤ میں ہے۔ قیادت کی اس عدم دلچسپی سے پرانے شہر کے اقلیتی قائدین میں مایوسی دیکھی جارہی ہے جو گذشتہ کئی برسوں سے پارٹی انچارجس کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔