ٹی آر ایس کا دو سالہ دور حکومت مسلمانوں کے لیے مایوس کن

یوم تاسیس تلنگانہ میں اردو زبان ندارد ، محمد علی شبیر کا بیان
حیدرآباد ۔ یکم ۔ جون : ( سیاست نیوز ) : قائد اپوزیشن تلنگانہ قانون ساز کونسل مسٹر محمد علی شبیر نے ٹی آر ایس کے دو سالہ دور حکومت کو مسلمانوں کے لیے مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ نہ مسلمانوں کو 12 فیصد تحفظات ملا اور نہ ہی ناجائز قبضوں کی وقف اراضی وقف بورڈ کے حوالے ہوئی ہے ۔ وقف بورڈ کی تشکیل عمل میں نہیں آئی اور نہ ہی اردو اکیڈیمی تقسیم ہوئی ۔ اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ نہیں ملا ۔ حکومت کی جانب سے یوم تاسیس تقریب کے جشن میں اردو زبان کو یکسر نظر انداز کردیا گیا ۔ اسمبلی میں اردو میڈیا کے نمائندوں سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے مسٹر محمد علی شبیر نے کہا کہ چیف منسٹر کو مسلمانوں اور مسلمانوں سے کیے گئے وعدوں کی عمل آوری میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ کے سی آر نے ٹی آر ایس کو اقتدار حاصل ہوتے ہی مسلمانوں کو 12 فیصد مسلم تحفظات فراہم کرنے کا وعدہ کیا ۔ 24 ماہ گذر گئے مگر مسلمانوں سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا گیا اور نہ ہی چیف منسٹر نے مسلمانوں میں پائی جانے والی بے چینی کو دور کرنے کی کوشش کی ۔ قانونی اختیارات نہ رکھنے والی سدھیر کمیشن تشکیل دیتے ہوئے وقت ضائع کرنے کے ساتھ مسلمانوں کو دھوکہ دیا جارہا ہے ۔ 12 فیصد مسلم تحفظات فراہم کرنے میں ناکام ہونے والی ٹی آر ایس حکومت نے 4 فیصد مسلم تحفظات کی برقراری سپریم کورٹ کے 5 ججس پر مشتمل دستوری بنچ کی سماعت پر اپنے وکیل کو بھی روانہ نہیں کیا ہے ۔ تلنگانہ حکومت کے ایڈوکیٹ جنرل رام کرشنا ریڈی مخالف مسلم تحفظات وکیل ہے ۔ جنہوں نے ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تک 4 فیصد مسلم تحفظات کی مخالفت کی ہے ۔ ٹی آر ایس کے دو سالہ دور اقتدار میں ابھی تک وقف بورڈ تشکیل نہیں دیا گیا اور نہ ہی وقف بورڈ کو قانونی اختیارات دئیے گئے ہیں ٹی آر ایس کے انتخابی منشور میں قبضہ شدہ وقف جائیدادوں پر سے ناجائز قبضے برخاست کرتے ہوئے قیمتی اراضیات وقف بورڈ کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر 2 سال میں ایک انچ اراضی بھی وقف بورڈ کے حوالے نہیں کی گئی ۔ منی کنڈہ جاگیر کی خالی اراضی اندرون 100 یوم وقف بورڈ کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا گیا 720 یوم مکمل ہونے کے باوجود وعدے پر کوئی عمل آوری نہیں ہوئی ۔ گرین لینڈ کی قیمتی وقف اراضی ہنوز محکمہ پولیس کے کنٹرول میں ہے ۔ حج ہاوز کے بازو عمارت کی تعمیری کاموں کو ادھورا چھوڑتے ہوئے مسلمانوں کے 40 کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کو منجمد کردیا گیا ۔ اس کا کوئی پرسان حال نہیں ہے ۔ سابق چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے نئے حج ہاوز اور انٹیگریٹیڈ عمارات کی تعمیر کے لیے 12 کروڑ روپئے منظور کئے تھے ۔ اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے ۔ اردو اکیڈیمی کی ابھی تک تقسیم عمل میں نہیں آئی ہے ۔ یہ حکومت اور عہدیداروں کی اردو سے دلچسپی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے ۔ تلنگانہ میں اردو زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا وعدہ کیا گیا اس پر کوئی عمل آوری نہیں ہوئی ہے ۔ 2 سال گذر جانے کے بعد بھی ضلع کھمم میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ نہیں ملا ۔ حکومت کی جانب سے تلنگانہ یوم تاسیس کا جشن شاندار طور پر منایا جارہا ہے ۔ حکومت کے تشہیری پروگرامس پمفلٹس ، بیانرس اور ہورڈنگس میں اردو کو نظر انداز کردیا گیا ۔ اردو کو ترقی دینے سے متعلق چیف منسٹر کے دعوے کھوکھلے ثابت ہورہے ہیں ۔ اردو اکیڈیمی لائبریری کے ایمپلائز کو 4 ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی گئی ۔ اردو اکیڈیمی کے کمپیوٹر سنٹرس میں کمپیوٹر ناکارہ ہوچکے ہیں ۔ اسٹاف کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی نئے کورسیس کو متعارف کرایا گیا ہے ۔ پڑوسی ریاست آندھرا پردیش میں حج کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے ۔ تلنگانہ میں ٹال مٹول کی پالیسی اپنائی جارہی ہے ۔ حکومت حج کمیٹی کو نظر انداز کررہی ہے ۔ مسلمانوں سے چیف منسٹر نے جو بھی وعدے کئے ان میں ایک وعدے کو بھی پورا نہیں کیا گیا ۔ چیونٹی شاہ مسجد سے متصل وقف اراضی پر جنہیں پٹہ الاٹ کیے گئے تھے آج بھی ان کا ہی قبضہ یہاں تک انہیں وقف بورڈ کا کرایہ دار بھی نہیں بنایا گیا ۔ ڈپٹی چیف منسٹر مسٹر محمد محمود علی اسی مسجد میں نماز پڑھتے ہیں ۔ انہوں نے پٹہ جات منسوخ کرنے کا اعلان کیا مگر آج تک وقف اراضی وقف بورڈ کے حوالے نہیں ہوئی ہے ۔ وقف جائیدادوں کا کتنا تحفظ ہورہا ہے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ شادی مبارک اسکیم میں بڑے پیمانے پر دھندلیاں ہورہی ہیں ۔ دو سال سے ریاست تلنگانہ میں منظورہ اقلیتی بجٹ 50 فیصد بھی خرچ نہیں ہوا ہے ۔ مرکز سے تلنگانہ میں اقلیتوں کو 105 کروڑ روپئے کا بجٹ ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ صرف 29 کروڑ روپئے حاصل ہوئے ہیں ۔۔